پشاور (نوائے وقت رپورٹ) جمعیت علمائے اسلام کے نومنتخب امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جے یو آئی، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی مسودہ بنارہی ہے، سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہوں، عوام کے نمائندے ترمیم لائیں۔ چاہتے ہیں کہ اتفاق رائے سے ترمیم لائی جائے۔ پارلیمان اتنی بڑی ترمیم کا حقدار نہیں، جعلی پارلیمنٹ سے ترمیم نہیں کرائی جاسکتی، جعلی پارلیمنٹ سے ترمیم کرانا زیادتی ہے۔ نہ مرکز میں عوام کی حکومت ہے نہ صوبے میں، مرکز اور صوبے میں جلعی حکومتیں ہیں۔ عدلیہ میں اصلاحات لائیں، آئینی عدالت کی جانب جائیں، بنیادی حقوق کو نہیں ڈبونا چاہیے۔ شاہد خاقان عباسی میرے گھر آئے تھے، وہ راضی ہوگئے تھے کہ کچھ نکات واپس لیں لیکن امریکہ کے دباؤ پر انضمام کا فیصلہ کیا گیا، انضمام کے نام پر قبائلی عوام کے ساتھ ظلم ہوا۔ قبائل کو 8 سو ارب روپے ملنا چاہیے تھا سو ارب روپے بھی نہیں ملے۔ ایک پارٹی موجود ہے، صوبائی حکومت کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی صوبے کو صوبے سے لڑانا چاہیے۔ اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر نے پاکستان کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے، پاکستان سمیت پانچ اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا چاہیے۔ اس پارلیمان کے پاس اتنی بڑی ترمیم کا مینڈیٹ نہیں ہے اور ان سے یہ ترمیم کرانا بذات خود ناانصافی ہے، اگر آپ آئینی ترمیم میں بنیادی حقوق کو بھی ڈبو دیتے ہیں اور فوج کو اتنا مضبوط کریں کہ ہر سطح پر فوج ہی فوج نظر آئے تو پھر مارشل لا اور اس ترمیم میں کیا فرق ہے، یہ دوسرے معنوں میں مارشل لا لگا رہے تھے اس لیے ہم نے آئینی ترمیم کو سپورٹ نہیں کیا۔ اسمٰعیل ہانیہ کے بعد حسن نصراللہ دوسری بڑی قربانی ہے اور اسرائیل نے بہت بڑا ہدف حاصل کیا جس سے اعصابی طور پر ان کے حوصلے بلند ہو سکتے ہیں، تو ہمیں اپنے حوصلے ہارنے نہیں چاہئیں اور مسجد اقصیٰ کی آزادی تک یہ جہاد جاری رہے گا۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے جس طرح 2018 میں ہمارے حوصلے بلند تھے، 2024 میں بھی ہمارے حوصلے کم نہیں ہوئے اور ہم نے چاروں صوبوں میں ملین مارچ کر کے بتا دیا ہے کہ ہمارا کارکن زندہ ہے اور وہ اپنے ساتھ ناانصافی کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا صوبہ آگ میں جل رہا ہے، جنوبی وزیرستان کے وزیر اور محسود قبیلے کے وفود میرے پاس آئے، شمالی وزیرستان کے اتمان زئی قبیلے کے لوگ میرے پاس آئے، کرم ایجنسی کے لوگ بھی آئے اور اب بھی وہاں لوگ ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں اور ریاست خاموش ہیں۔ خیبر ایجنسی سے آفریدی قبیلے کے لوگ آئے تو کوئی ایسی ایجنسی نہیں ہے جن کے وفود میرے پاس براہ راست نہ آئے ہوں، یہ سب لوگ تشویش کا شکار ہیں۔ وزیر خیبر پی کے علی امین گنڈاپور کی جانب سے صوبے میں انقلاب لانے کے بیان کے حوالے سے سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں تو اس بیان کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اس پر بیان دوں، میں ایسے لوگوں اور ان کے بیانات کے جواب دینا اپنی توہین سمجھتا ہوں، میرے نزدیک ایسے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، ایسے بیان دینے کی کیا ضرورت ہے کہ جس سے آپ ریاست اور صوبوں کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا کردیں۔