قیوم طاہر کے حوالے سے کچھ لکھنا آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ آسانی کی بات کروں تو میری قیوم طاہر سے بیشمار ملاقاتیں ہیں۔ اور وہ میرے لیے ایک استاد کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے جو ادب کے ادنیٰ طالبِ علم کی حیثیت سے میرے بہت کام آیا ہے۔ ان کے بارے میں کافی حد تک مجھے معلومات ہیں۔ قیوم طاہر حقیقتاً کثیر جہتی اور نہایت دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ تہذیب یافتہ، باوقار اور بااخلاق ہونے کے ساتھ باشعور شخصیت کے مالک ہیں اور زندگی کے بہت سے معاملات میں گہرا تجربہ اور مشاہدہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیوم طاہر کی شاعرانہ صلاحیتیں بہت سی پرتوں اور جہتوں پر مشتمل ہیں اور قیوم طاہر امکانات کے شاعر ہیں۔ اگر دشواری کو دیکھیں تو ان کی شاعری کے بارے میں اظہار خیال مشکل ہے۔ کیونکہ ان کی شاعری کی جہتیں تلاش کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ قیوم طاہر کا شعری رویہ‘ لہجہ‘ ڈکشن اور اسلوب جہاں ان کی مٹی سے جڑے لوازمات سے مرتب ہوتا ہے وہاں ان کی شاعری میں متنوع اور اچھوتے موضوعات کے ساتھ ان کااظہار و ابلاغ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اور ان کی شاعری یقیناً ادب کا اہم حصہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شاعری کی گونج بہت دیر تک رہے گی۔
قیوم طاہر اگر اردو کے روزمرہ محاورے کو بھی بیان کرتے ہیں تو اس کی سادگی بھی دل میں اتر جاتی ہے۔ لیکن ان کی شاعری کا اپنا الگ اسلوب ہے جو ان کی شاعری سے صاف جھلکتا ہے۔ ان کے اشعار عمدگی اور روانی کی بدولت زبانی یاد ہو جاتے ہیں۔
قیوم طاہر انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں اور اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیّل کی بلندی اور شوخیِ فکر کا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔
وہ شاعری میں صرف جذبات کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں باہمی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قیوم طاہر صرف اشاروں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نرم و لطیف، احساسات و کیفیات کا تجزیہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔ پھر قیوم طاہر کی شاعری میں معانی کی مختلف سطحیں موجود ہیں۔ ان کے بہت سے اشعار ایسے ہیں۔ جن کی فلسفیانہ ،سیاسی اور شخصی تفسیر ہم کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں معانی کی نئی جہتیں متعارف کراتے ہیں۔ اسی طرح قاری کو رمزیت اور ایمائیت کا رنگ بھی ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ قیوم طاہر زبان و بیان اور لہجے کے اعتبار سے چابک دست شاعر ہیں۔ ان کے اشعار عمدگی اور روانی کی بدولت زبانی یاد ہو جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں تلخیوں اور محرمیوں کی زنجیر بھی موجود ہے اور زندگی کا حقیقت پسندانہ تصور بھی موجود ہے۔ان کے بعض شعروں میں طنز و مزاح شوخی وظرافت جیسے پہلو بھی نظر ا?تے ہیں۔ اور زندہ دلی اور خوش طبعی کا پہلو بھی موجود ہے۔ ان کی شاعری میں پیکر تراشی اور تصویر کاری موجود ہیں اور ان کے اشعار معاشرتی، تہذیبی حالات، نجی معاملات اور ان کے زیر اثر پرورش پانے والی ذہنی کیفیات کا آئینہ دار ہیں اور استعارات اور تشبیہات کا خوبصورت استعمال اسے مزید نکھار دیتا ہے۔
قیوم طاہر کی شاعری میں نکتہ آفرینی بھی پائی جاتی ہے اور وہ عام روش سے ہٹ کر چلنا پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے جہاں اپنی شاعری کے مواد اور الفاظ و بیان پر توجہ دی وہاں معنویت اور نکتہ آفرینی پر بھی زور دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج ممتاز شعراء کی صف میں شامل ہیں۔ ان کی تخلیقی کاوشیں اْردو ادب کی ممتاز اور مقبول شاعری کی صف میں شمار کی جاتی ہیں۔ ایک فطری شاعر کی کسوٹی یہی ہے کہ اس کی دولت، شہرت، محبّت، رغبت، محنت شاعری ہی ہوتی ہے جو اس کے رگ وپے میں خون کے مانند دوڑتی پھرتی ہے۔
ان کی شاعری کے حوالے سے تمام بیان کردہ پہلووں کی امثال میں بہت سے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن طوالت سے گریز کرنا ضروری ہے۔ قیوم طاہر کے کتب سے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
خود فریبی کے دھندلکے میں رکھے برف کے پھول
دھوپ میں بیٹھ کہیں، ذات کے حْجرے سے نکل
حاکمِ شہر تو پہلے بھی کہاں ڈرتا تھا
خلقتِ شہر بھی اب خوفِ خدا سے خالی
حیثیت بس اتنی تھی، راکھ ایک چْٹکی بھر
اْلٹی اس ہتھیلی پر کیا جہاں لیے پھرتا
اک شگاف پڑتا ہے اک شگاف بھرنے پر
خواب کے تغارے کو میں کہاں لیے پھرتا
اک صندوق جسے کھولتے جی ڈرتا ہے
تہہ بہ تہہ یاد کے رکھے ہوئے پشمینے ہیں
اتنے روشن تھے خواب شہروں کے
لوگ دیہات سے نکل گئے ہیں
دیکھ لیجیے کہیں یہ ہم تو نہیں
وہ جو اوقات سے نگل گئے ہیں
میں جانتا ہوں کہ اب ریت جْڑ نہ پائے گی
میں چاہتا ہوں زمین چھوڑ دوں مگر مری خاک
عشق اور عشق کے آداب کا کیا کرنا ہے
تو نہیں ہے تو کسی خواب کا کیا کرنا ہے
جب ترا نام مرے نام کے ساتھ آیا نہیں
حرف کا لفظ کا اعراب کا کیا کرنا ہے
میرے کالر سے تری آنکھ کا کاجل نہ گیا
تْو بہت دْور گیا پھر بھی مکمل نہ گیا
کورے سونے کی طرح خود کو بنانا چاہا
کھوٹ نکلا ہی نہیں جوڑ کا پیتل نہ گیا