یہ وقت آخر کیا بلا ہے،کہاں سے آیا اور کہاں جا رہا ہے۔ہم سب اس کے کیوں غلام ہیں،اس کے اصولوں کے خلاف بغاوت کا کیوں نہیں سوچتے اور سارے مل کر اس وقت کا دھارا کیوں نہیں بدل دیتے۔اس کے اصول کس نے وضع کیئے ،وقت کی گھڑی سر پر کیوں آن کھڑی ہوتی ہے اور وقت آگے ہی کیوں دوڑتا رہتا ہے۔آخر پیچھے اتنی جگہ خالی پڑی ہے،اس کو بھرنے کی یہ کیوں نہیں سوچتا اور گر اس نے ایسا کیا،تو کیا وقت کا دھارا رک جائے گا اور کیا ہم دوبارہ جواں عمری کے حسین و جمیل اوقات میں دوبارہ کود پڑیں گے۔
الغرض وقت کی گتھی نے ہمارا دماغ الجھا دیا،نہ یہ ایجاد ہوتا اور نہ ہم اس سارے مخمصے میں پڑتے۔وقت کی سوء سنا ہے اٹکتی نہیں،ہر وقت ٹک ٹوک چلتی رہتی ہے اور یہ ایک ہی رفتار سے کیوں چلتی رہتی ہے،آخر گرمی میں تیزی طراری کیوں نہیں دکھاتی ،سردی میں دبیز کپڑوں کے درمیاں خراماں خراماں چلے ،خزاں کے پتوں کی رنگینی دیکھ کر اٹہل جائے اور بہار کی تازہ ہوا اسے اڑائے لیئے جائے۔رات کو سوئے،دن کو جاگے،کبھی نہ کبھی وقت کو بھی ذرا جلدی جلدی قدم اٹھانے چاہیں اور کبھی اس سبک رفتاری میں وقت پھسل بھی سکتا ہے،شاید اسی لیئے کبھی وقت ایک سا نہیں رہتا۔
لوگ پرانا وقت خوب یاد کرتے رہتے ہیں،اب نئے وقت کا کیا قصور کہ دنیا بدل گء اور پرانے لوگ اس وقت سے کیوں بیزار سے رہتے ہیں۔آنے والے وقت کی پریشانی الگ لگی رہتی ہے،بھاء ہر وقت یہ بدلتا رہتا اور یہ وقت یقینا کسی نوخیز دوشیزہ کی مانند ہے،اس کا کوء بھروسہ ہی نہیں۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
جس وقت میں قدم موجود ہے،اس کی اہمیت نہ بھولو،حالیہ وقت ہی اصل شے ہے،گزرا کل کا وقت واپس نہیں آنا اور کل کا وقت کس نے دیکھا ہے۔بس ہر وقت مولا کا شکر ادا کرتے رہو،جس حال میں ہو خوش رہو اور مشکل وقت کی گھڑی سے بچو۔ویسے اس کی کیا پہچان ہے،کیا مشکل وقت خونخوار دکھاء دیتا ہے،پریشان لگتا ہے یا اس پر اداسی چھاء رہتی ہے۔اور تو اور لوگ کہتے ہیں مشکل وقت بتا کر نہیں آتا،بھء ہماری تہذیب میں اسے بغیر اجازت گھر میں داخلہ نہیں ملے گا اور کوء نہ کوء بزرگ اس کا دامن پکڑ کر اس سے پوچھ گچھ ضرور کر لے گا،ائے غضب خدا کا وقت نا وقت منہ اٹھائے اندر چلے آ رہے ہو،میاں کچھ وقت کا بھی احساس ہے،ہاں کیا تمھیں اپنی اوقات کا بھی پتہ ہے یا ہم بتائیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے، وقت کے ہاتھ پاوں نہیں ہوتے،بھء یہ گھڑی کی سوئیاں وقت کے ہاتھ نہیں تو اور کیا ،گر اس کے پیر نہ ہوتے تو وقت اس قدر تیزی سے کہاں بھاگا جا ریا ہے۔وقت پانی کی طرح رواں دواں ہے،دونوں پلٹ کر واپس نہیں آتے اور اپنے ساتھ وقتی یادوں کے مسافر لیئے اڑتے ہیں۔
وقت کی بھی بیشمار اقسام ہیں، اچھا و برا وقت،کڑا و کٹھن وقت،وقت سفر،وقت نزاع، نازک وقت ،وقت جداء،وقت رخصت و آخر،خلیفہ و حاکم وقت،قاضی وقت،سالار وقت ،وقت نماز،وقت جہاد،وقت اذاں،ابن الوقت۔یہ بے تحاشا اوقات کار انسان پر کیا گزرتی ہے،وہ خود کہاں سے گزرتا ہے ،اس کی دینی ضروریات اور اس پر حاکم افراد کی کہانی بیان کرتا ہے،ماسوائے ایک کے جو کسی خود غرض چلتے پرزے کی سیرت بیان کرتا ہے،ابن الوقت!
کیا دوست بھی وقتی ہو سکتے ہیں،جی جناب یہ سرشت اکیسویں صدی میں پیدا ہوء ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔وقت ضرورت انسان اپنے اردگرد جمگھٹا سا لگا لیتا ہے،کچھ ضرورت مند دوست ہوتے ہیں اور چند وقت کے ساتھ چلنے والے دوست ہیں۔یہ یقینا وقت کو خواہ مخواہ بدنام کرنے کی سازش ٹھہری، آخر اس میں وقت کا کیا قصور کہ وہ دوست صرف وقتی نکلے!
بچپن و جوانی میں وقت کے چلنے کی رفتار خاصی سست تھی،شاید ابھی دوڑنا نہیں سیکھا تھا اور پھر جیسے ہی ادھیڑ عمر میں قدم رکھا ،نہ جانے اس پر کیا آفت آن پڑی، بزرگی کی سمت کم از کم وقت میں قلانچیں مارتا پہنچ گیا۔بزرگ اپنے وقت کی باتیں کرتے نہیں تھکتے،جوانوں کے ان وقتوں کے قصے سن سن کر کان پک جاتے ہیں اور پھر وقت ان پر بھی بزرگی کی چادر ڈال ہی دیتا ہے۔کبھی کبھار اکیلے میں وہ اپنے بزرگوں کا وقت یاد کر کے ہنس لیتے ہیں،کیونکہ ان کی جوانی کا وقت اب انھیں وہی داستانیں سنا رہا ہوتا ہے اور اگلی نسل کا رویہ کچھ مختلف نہیں ہوتا۔کیا وقت بدلتا ہے،یا وقت گھوم پھر کر وہیں آ کھڑا ہوتا ہے اور کہانی سنانے والے بدلتے رہتے ہیں۔
وقت کو قابو کرنا کوء مشکل کام نہیں،بس انسان کو صرف وقت کی فضول خرچی سے اجتناب کرنا پڑے گا اور اس کا بہترین طریقہ کار ان سارے بیکار عوامل کو، اپنی زندگی سے رسولی کی جراحی کی طرح باہر نکال کر پھینکنا ہے۔ان میں دور درشن سب سے بڑا دشمن وقت ہے،پھر سماجی رابطے کی بزمیں اور آخری وقت سفر ہے۔دوران سفر وقت کا بے تحاشا ضیاع ہوتا ہے،چھک چھک میں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت، تحریر و تصنیف اور غور و فکر کے لیئے مختص کریں۔یہ چند مفید مشورے ہیں،جو وقت کی تیز رفتاری گاڑی کو پکڑنے کا کامیاب نسخہ ہے اور خاکسار اس پر عملدرآمد کرتا ہے۔
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
Sep 30, 2024