دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں واضح فرق ہوتا ہے۔آزادی کی تحریک کی زندہ مثال کشمیر اور فلسطین ہے، اس وقت کشمیری عوام اپنے حقوق اور کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بھارت کی کشمیر میں موجود لاکھوں کی فوج کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور اب تک ہزاروں کشمیری بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں،ہزاروں کشمیری ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں پامال ہوچکی ہیں اور ہزاروں کشمیری بھارتی فوجیوں کی پیلٹ گن کی گولیوں کا نشانہ بن کر معذور ہوچکے ہیں اور سب سے بڑھ کر کشمیرپر اقوام متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں کہ کشمیرمیں رائے شماری کرائی جائے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں لیکن بھارت کشمیر میں رائے شماری کرانے پرکسی صورت تیار نہیں ہورہا ہے اب ایسی صورت حال میں اگر کشمیری اپنے حقوق کے لیے ہتھیار اٹھاتے ہیں تو یہ غلامی سے آزادی کی جنگ ہے،جہاد ہے جو کہ شرعاً اور قانوناً جائز ہے۔اسی طرح اسرائیل نے فلسطین اور بیت المقدس پر غاضبانہ قبضہ کررکھا ہے اور مسلسل بمباری سے بے گناہ فلسطینی مردوں،عورتوں،بوڑھوں اور بچوں کو شہید کررہا ہے۔ایسے میں فلسطینی اسرائیلی مظالم کے خلاف جوبرسرپیکار ہیں وہ جہاد ہے جو مسلمانوں پر واجب ہے۔مگر واضح رہے کہ بلوچستان کے حوالے سے آزادی کے نام پربننے والی تمام تحریکیں جعلی اور بے بنیاد ہیں، تاریخ اس بات کی شائد ہے کہ خان آف قلات نے اپنی خوشی کے ساتھ پا کستان کے ساتھ الحاق کیا تھا،خدانحواستہ پاکستان نے زبردستی بلوچستان پر قبضہ نہیں کیا اور نہ ہی پاکستانی فوج وہاں بھارتی اور اسرائیلی فوج کی طرح عوام پرظلم کررہی ہے بلکہ پاکستان فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے مسلسل جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ازلی دشمن بھارت بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے مسلسل77سالوں سے سازشیں کررہا ہے،ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو جنم دیا گیا پھر انہیں فنڈنگ،اسلحہ اور تربیت دے کر ریاست کاباغی بنادیا گیا۔غداروں نے ملک دشمن ایجنٹ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تاریخی حقائق کو مسخ کرکے نوجوان نسل کے سامنے پیش کیے اور اپنے مفادات کے لیے اس دہشت گردی کو قومیت اور آزادی کی جنگ قرار دے کر اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کی خونریزی کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا۔یاد رکھیے گا کہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے تعلیم یافتہ نوجوانوں کومنفی پراپیگنڈا کے ذریعے گمراہ کرکے ریاست کے خلاف کھڑا کرنا،خواتین کو بطور حفاظتی ڈھال کے استعمال کرنا،بوڑھوں اور بچوں کو قتل کرنا،ملکی املاک کو نقصان پہنچاناآزادی کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہوتی ہے،جہاد نہیں بلکہ فساد ہوتا ہے۔جو شرعاً اور قانوناً حرام ہے۔واضح رہے کہ جنگ کی صورت میں بھی بمباری،میزائل یا کسی اور حملہ کی صورت میں بے گناہ افراد کو ماردینا کو لیٹرل ڈیمج نہیں بلکہ کھلی دہشت گردی ہے۔اسلام میں دوران جنگ نہتے افراد،بوڑھوں،بچوں اور خواتین کو مارنا حتیٰ کہ جانوروں اور کھیتوں کو نقصان پہنچانا بھی سختی سے منع کیا گیا ہے۔آج بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں بلاوجہ بے گناہوں کا قتل عام کررہی ہیں،ان انسانیت کے دشمنوں کے ہاتھوں بوڑھے،بچے،خواتین اور دوسری اقوام کے افراد محفوظ نہیں،ابھی دوران کالم معلوم ہوا کہ پنجگور میں کالعدم تنظیم بی ایل اے کے مسلح دہشت گردوں نے پنجاب شجاع آباد کے رہائشی سات نہتے پنجابی مزدوروں کو شہید کردیا (اناللہ واناالیہ راجعون)ان کا کیا قصور تھا؟وہ تو مزدوری کی غرض سے یہاں آئے ہوئے تھے،ان کا تو کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔کیا بے گناہوں کو مارنا آزادی کی جنگ ہے؟نہیں بالکل بھی نہیں یہ کھلی دہشت گردی ہے۔آج دہشت گردوں کی پراکسی بی وائی سی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسے سہولت کار،دشمنوں کے ایجنٹ،ازخود غائب افراد جو کہ اس وقت پہاڑوں پر دہشت گردی کے کیمپوں میں موجود ہیں کو لاپتہ افراد قرار دے کران کے لواحقین کو لیکر احتجاج اور دھرنوں کے نام پر صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں،سٹرکیں بند ہونے کی وجہ سے مارکیٹیں بند ہیں جنکی وجہ سے تاجروں کا معاشی قتل ہورہا ہے،اشیاء خوردنوش نہ ملنے کی وجہ سے لوگ بھوک سے مررہے ہیں،مریض ہسپتال نہیں پہنچ پارہے،طلباء وطالبات کو کالجز اور یونیوسٹیوں میں جانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔آخر یہ کس طرح کے حقوق کی جنگ ہے؟ایک طرف ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں دوسری طرف بلوچستان کی پسماندگی کا رونا رویا جاتا ہے۔بلوچستان میں مسنگ پرسن کے حوالے سے زیادہ تر ڈرامہ رچایا جارہا ہے، ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی سازش ہے،جس کے کئی ثبوت موجود ہیں جیسا کہ طیب بلوچ نامی ایک شخص جوکہ بی ایل اے کامسلح دہشت گرد تھا اس کو لاپتہ شخص قرار دے کر باقاعدہ ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی،جس کی بیلہ کیمپ میں خود کش حملے شناخت ہوئی،اس کے علاوہ لاتعداد دہشت گرد، جودہشت گرادنہ حملوں میں مارے گئے وہ لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے۔دوسری بات اگر ریاستی ادارے لوگوں کو جبری اغواء کرتے ہیں تو پھر مسنگ پرسن کے نام پر سیاست کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے بننے والے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے سے انکارکیوں ہے؟یہ وہ حقیقت ہے جو کئی سوالات کو جنم دیتی ہے،ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ مسنگ پرسن کے نام پر نہ صرف ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کررہی ہے بلکہ دشمن ممالک سے اس کام کے لاکھوں ڈالرز بھی وصول کررہی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی ہمدردیاں بھی سمیٹ رہی ہے۔دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے خواتین کا استعمال کرتے ہیں جن کا میں اپنے سابقہ کئی کالموں میں ذکر کرچکا ہوں۔چند روز قبل تربت سے گرفتار ہونے والی خود کش بمبار عدیلہ بلوچ نے ان دہشت گرد تنظیموں کی اصلیت عیاں کردی،عدیلہ بلوچ نے بتایا کہ وہ ایک کوالیفائیڈ نرس ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ایک پراجیکٹ چلارہی تھی،مجھے منفی پراپیگنڈا کے ذریعے گمراہ کیا گیا۔میری اس انداز سے برین واشنگ کی گئی کہ میں خود کش حملہ کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔مجھے دہشت گردوں کی جانب سے نئی اور خوشگوار زندگی کے سبز باغ دکھائے گئے۔میں اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر پہاڑوں میں چلی گئی،وہاں جاکر مجھے احساس ہوا کہ یہ راستہ غلط ہے۔عدیلہ بلوچ بتاتی ہے کہ بلوچ خواتین اپنی مرضی سے خود کش حملہ نہیں کرتیں بلکہ انہیں بلیک میل کرکے ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے میں اس بات کی چشم دید گواہ ہوں۔
’’آزادی کی تحریکیں یا دہشت گرد تنظیمیں‘‘
Sep 30, 2024