سب اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جائیں گے

قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے یہ بھی بتایا ہے رزق اور موت کی فکر نہ کرنا۔ جبکہ ہمیں رزق اور موت کی فکر لاحق رہتی ہے اور چرند پرند اس فکر سے آزاد ہیں۔ ہم ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں موت سے بچنے کے لیے گارڈ رکھتے ہیں ،بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جب کہ چرند پرند ایسا نہیں کرتے۔ جوڑے بنا کر گھر بناتے ہیں بچے پالتے ہیں۔وہ دن کو کھاتے پیتے رات کو سوتے اور وقت پہ صبح اٹھتے ہیں۔ انسانوں کو اگر پیسے کی فراوانی آجائو تو وہ پھر تینوں وقت کا کھانا بھوک لگنے پر نہیں ڈیوٹی سمجھ کر کھاتے ہیں اور خوب کھاتے ہیں خاص کر جب کھانا دوسرے کے دسترخوان پر ہو تو آخری سمجھ کر کھاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو شادی بیاہ مختلف فنگشنوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ پیسہ بنانے کا نام بزنس ہے لہذا کم تولنا ملاوٹ کرنا جھوٹی قسمیں کھا کر چیزیں فروخت کرتے ہیں پیسے بناتے ہیں اور خود کو یہ لوگ کامیاب بزنس مین تصور کرتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ بزنس میں دو نمبری کرنا ضروری ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کا کوئی مذہب ، کسی قانون پر یقین نہیں کرتے۔ان میں کوئی شرم نہیں کوئی حیا نہیں نام کی چیز نہیں ہوتی۔یہ حلال حرام کی تمیز نہیں رکھتے۔ رشوت لینے اور دینے کو برا نہیں سمجھتے۔ آج پڑھے لکھے اور ان پڑھ میں کوئی فرق نہیں۔ سرکاری اداروں میں جب تک فائل کو پہیہ نہ لگائیں کام نہیں ہوتا، ہر جگہ رشوت کا بازار گرم ہے،ہر سونفسا نفسی ہے۔ بڑی عدالتوں کے بڑے ججز آئنی قانونی فیصلے لکھنے کے بجائے اپس میں گلے شکوے پر مبنی خطوط لکھتے ہیں۔ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں۔یہ اس وجہ سے ہے کہ بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ آ بیٹھے ہیں۔عام آدمی کے کیسوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ملک کے تعلیمی اداروں کا عدالتی اداروں سے برا حال ہے۔تعلیمی ادارے کار خانے بن چکے ہیں۔ ان پرائیوٹ سکولوں میں بچوں سے بھاری فیسیں لیتے ہیں۔ کم تنخواہیں والے اساتذہ رکھتے ہیں۔ڈگری ہولڈر اساتذہ کو رکھتے نہیں کہ انہیں بھاری فیسیں دینی پڑتی ہیں۔ ان پر کوئی چیک بیلنس نہیں یورپ میں پستول کا لائنس لینا آسان ہے مگر ٹیچنگ کا لائسنس لینا مشکل۔ان کی سوچ یہ ہے کہ پستول سے اتنے لوگ مریں گے جتنی اس میں گولیاں ہونگی لیکن نااہل نا لائق ٹیچر نسلیں تباہ کر جاتا ہے۔ ہمارے ہاں نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔کوئی کسی کو پرواہ نہیں۔بچوں میں تربیت کا فقدان ہے۔ والدین بڑھاپے میں صحت خراب ہونے پر بچوں کو دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔جبکہ ان کے بچے رشوت کے پیسوں سے اپنا فارن میں فیوچر بنا رہے ہوتے ہیں۔ان بچوں کو والدین کی کوئی پرواہ نہیں۔ اب تو یہاں بھی اولڈ ایج سنٹر اباد ہو چکے ہیں جہاں پیسے والوں کے بچے اپنے والدین کو یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔جب کہ جس طرح بچپن میں والدین بچوں کا خیال کرتے ہیں ایسے ہی بڑھاپے میں والدین کا خیال بچوں کو کرنا چائے مگر ایسا وہ کرتے نہیں۔ ہر کوئی اپنا کام نہیں کرتا۔ جیسے نائی قصائی کا اور قصائی نائی کا کام کر رہا ہے۔کچھ ڈاکٹر قصائی بن کر علاج نہیں مریض کوپیسے کی مشین سمجھ کر لٹا? رکھتے ہیں۔کچھ ججز سیاست کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ وکلا وکالت نہیں کیس کا ٹھیکہ کرتے ہیں اور کامیاب وکیل کہلاتے ہیں۔ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ڈاکے چوریاں سٹریٹ کرائم عام ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ڈاکو صرف کچے کے علاقے میں پائے جاتے ہیں جب کہ بڑے ڈاکو پکے کے علاقے میں عالیشان بنگلوں فارم ہاؤسز میں پائے جاتے ہیں۔ یہ دو نمبر بزنس کرتے ہیں۔سیاست میں حصہ لیتے ہیں اگر قدرت کے شکنجے میں آ کر یہ جیل چلے جائیں تو وہاں بھی انہیں گھر جیسی سہولیات ملتی ہیں۔ ادوایات کے ساتھ ڈرگ بھی لیتے ہیں بلکہ یہ ڈرگ کا کاروبار بھی جیل میں کرتے ہیں۔ یہ اپنے مقدمات میں وکلا نہیں ججز کرتے ہیں۔ تبلیغ کرنے والے یہاں تبلیغ نہیں کرتے ملک سے باہر تبلیغ کرنے جاتے ہیں جب کہ تبلیغ کی اصل ضرورت یہاں ہے۔ وہاں لوٹو اور گلاس کو تالے نہیں لگا? جاتے وہاں جوتے مساجد سے چوری نہیں ہوتے۔ فارن میں کوئی جھوٹ نہیں بولتا۔کوئی کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ نہیں کرتا۔ کوئی کسی کو دھوکہ نہیں دیتا کوئی کسی کو چیٹ نہیں کرتا۔ وہاں رہ کر صاف ستھری زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ حلال چیزیں کھا سکتے ہیں۔ مغرب میں گدھے ،کتے اور مردہ جانور کا گوشت فروخت کرنا تو دور کی بات وہ ایسا کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اس لیے نہیں وہ لوگ فرشتے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں قانون ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتا۔ وہاں لوگوں کے ضمیر زندہ ہے۔ انہیں یقین ہے غلط فیصلے کرنے پر ایک نہ ایک دن پکڑا جاؤں گا۔ جبکہ یہ سوچ یہاں نا پید ہے۔ بہت کم اس سوچ کے مالک شہری اپ کو یہاں ملیں گے۔ایسے میں بابا کرمو ہنستے مسکراتے میرے آفس آئے۔ پوچھا موجودہ حالات میں سب پریشان ہیں سوائے آپ کے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ بابا کرمو نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جس ٹیکسی سے آیا ہوں ڈرائیور نے واقعہ سنایا جس کی وجہ سے آپ میرے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ رہے ہیں۔ بابا کرمو یہ واقع مجھے بھی سنایا جو اپ کی خدمت میں پیش ہے گامے نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں دھوم دھام سے کی تھی۔ ایک بیٹی کی زمیندار کے گھر اور دوسری بیٹی کی شادی کمہار کے گھر کررکھی تھی۔ایک سال کے بعد جب گاما اپنی ان دونوں بیٹیوں سے ملنے اور ان کا حال احوال پوچھنے ان کے گھر گیا۔ گاما پہلے زمیندار کے ہاں بیاہی گئی بیٹی کے گھر گیا۔پوچھا آپ کیسی ہو کیسے حالات ہیں ؟ اس نے کہا ابا جی دعا کریں بارشیں ہوں اگر بارشیں نہ ہوئیں تو فصل اچھی نہیں ہو گی تو ہم اجڑ جائیں گے۔ اس کے بعد اٹھ کر گاما کمہار کے گھر جو بیٹی بیاہی تھی اس کے پاس گیا۔ اس سے پوچھا بیٹی کیسی ہو، کیسے حالات ہیں۔بیٹی نے کہا بابا جانی دعا کریں کہ بارشیں نہ ہوں وگرنہ جتنے برتن بنائے ہیں وہ سب ضائع ہو جائیں گے اور ہم اجڑ جائیں گے۔ یہ سن کر گاما پریشان اپنے گھر واپس آیا۔گامے کی بیوی نے جب گامے سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو گامے نے ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔دونوں میں سے ایک کا گھر تو کنفرم ہے کہ وہ اجڑے گا" بابا کرمو مسکرا کر بولے یہ گامے کا تفصیلی فیصلہ تھا جو اس نے بیوی کو سنایا۔ بابا کرمو نے کہا اب اپ سناؤ اپ کی عدالت کا بھی تو تفصیلی فیصلہ آیا ہے۔ کہا میں نے کیا کہنا تھا یہاں بھی گامے کی بیٹیوں سے ملتے جلتے حالات ہیں۔ وہاں بارشیں قدرت نے کرنی ہیں جبکہ یہاں کچھ لو اور دو کے فارمولے پر لگتا ہے یہ راضی ہو چکے ہیں۔لہزا ترمیم ہونے جارہی ہے۔اس ترمیم میں سب سے اہم آئنی عدالتیں ہیں لگتا ہے وہ ضرور بنے گی۔بابا کرمو نے کہا یہ شور کرنے والے ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں سے ما داڑ کر کے بھاگے ہو? یہ وہ ورکر ہیں جو چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ آٹھ ججوں نے فیصلہ آئین قانون کے مطابق کیا تھا یا سیاسی ان کا شور زور اس پہ ہے قاضی جا? اور شاہ صاحب آئیں۔ یہ ان مٹھی بھر کالے کوٹوں کے شور کو نہیں سنیے گے ان کے کالے کرتوتوں سے یہ واقف ہیں یہ سننے والوں کی سنے گے۔ جس سے فائدہ دکھائی دیا وی کریں گے لہذا ترمیم ہوگی۔باقی سب اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن