بھارت عرب دنیا کا ناقابلِ اعتماد اتحادی

مقبوضہ کشمیر  اور فلسطین کے لوگ کئی عرصے سے جارحیت پسندانہ ذہنیت اور سازشوں کا شکار ہیں۔  مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر تسلط بھارتی وزیر اعظم مودی اور ان کے اسرائیلی ہم منصب نیتن یاہو دونوں کا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کے لیے دونوں رہنماؤں نے اسٹریٹجک اتحاد قائم کیا ہے۔ دنیا نے اس کی عملی مثال اْس وقت دیکھی جب بھارت نے فلسطینی قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اگرچہ مودی حکومت عرب دنیا کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ماڈل نافذ کیا ہے تاکہ بہادر کشمیریوں کی مزاحمت کو شکست دی جا سکے جو اپنے  قانونی حق کے حصول کے لیے ہر طرح سے قربانی دے رہے ہیں جبکہ بھارت اور اسرائیل انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی مکمل حمایت اور منظوری  حاصل ہے۔ بے گناہ کشمیری اور فلسطینی مسلمان بدترین ظلم و ستم کا شکار ہیں۔  بہادر کشمیریوں اور فلسطینیوں کا صرف ایک ہی گناہ ہے کہ وہ بھارت اور اسرائیل کے غیر قانونی قبضے سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔مودی کے اثر و رسوخ میں بھارتی میڈیا نے یہ تاثر قائم کیا کہ عرب ممالک نے طویل عرصے سے بھارت کو اپنا ابھرتا ہوا اسٹریٹجک ساتھی سمجھا ہے لیکن اقوام متحدہ میں ووٹنگ سے گریز کرنے سے عرب رہنماؤں کو شدید دھچکا لگا اور انہیں بھارت کی 

دھوکہ دہی کا احساس ہوا اور بھارت کی طرف سے اس طرح کی اسرائیل نواز پالیسی عرب رہنماؤں کے لیے یقینا مایوسی کا باعث بنے گی اور اس کے ساتھ ساتھ قیام امن کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا۔ بھارت کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی مکارانہ پالیسی کو چھپانے کیلئے ہمیشہ خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھنے کے بہانے کا سہارا لیتا ہے۔ بین الاقوامی طور پر  بدلتی ہوئی صورتحال میں بھارت کے اس طرح کے اقدامات سے خانہ جنگی اور تصادم کے خطرات مزید  پھیلنے کا خدشہ ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے اپنے کسی اتحادی ملک کی پیٹھ میں چھرا نہ گھونپا ہو۔ اس کی ایک اور مثال حال ہی میں یوکرینی حکومت کو خفیہ طور پر ہتھیاروں کی فروخت شامل ہے۔بھارت کی اس حرکت نے روسی حکومت کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ بھارت اسرائیل اور عرب  دونوں ممالک کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے، جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بھارت ایک قابل بھروسہ حلیف ہے؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کے حق میں ووٹنگ سے گریز نہ صرف بھارت کی سفارتی حیثیت کو مشکوک بناتا ہے بلکہ کشمیر کے معاملے میں بھارت اور فلسطین کے معاملے میں اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کر کے بین الاقوامی طور پر دونوں ممالک جنگی جرائم کے مرتکب ہیں اور عالمی برادری کو ان کے احتساب کا مطالبہ جلد یا بدیر کرنا ہی پڑے گا۔

ای پیپر دی نیشن