خدا کرے کہ سب کچھ ایسا ہی ہو،خادم پنجاب کے شہروں شہروں کے دورے ان کی صحت مندی کی علامت ہیں۔ میں یہ تمنا تو نہیں کروں گا کہ وہ اپنے ان دوروں کا سلسلہ طولانی کرکے اپنی صحت خراب کر بیٹھیں مگر ان کے دوروں سے معاشرے کی صحت بھی درست ہو رہی ہے اس لئے اس میری یہ تمنا ضرور ہوگی کہ وہ غربت کی اتھاہ گہرائیوں اور مایوسیوں میں ڈوبے اس بیمار معاشرے کی مکمل صحت یابی تک اپنے چھاپہ مار پروگرام کو جاری رکھیں۔ وہ مستعد نظر آئیں گے تو معاشرے کی صحت کی خرابی کا باعث بننے والی انتظامی مشینری بھی ’’شرمو شرمی‘‘ مستعدی دکھاتی رہے گی، چاہے اوپر اوپر سے ہی پکڑ دھکڑ کرے، اس سے معاشرے کی اصلاح کی کوئی نہ کوئی گجائش تو پیدا ہوتی ہی رہے گی اور ممکن ہے میرے جیسے قنوطیوں کوبھی گلاس کو آدھا خالی سمجھنے کے بجائے آدھا بھرا ہوا دیکھنے کی عادت پڑ جائے۔ ورنہ تو وزیراعلیٰ پنجاب گزشتہ روز مظفر گڑھ کے سستے رمضان بازار میں عوام الناس بشمول غریب خواتین کو روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء کی سستے داموں عام دستیابی کی یقین دہانی کر رہے تھے مگر میری نگاہیں راولپنڈی کی اس دہشت زدہ ادھیڑ عمرخاتون کی تصویر پر جمی ہوئی تھیں جسے دو خواتین اہلکار نوچنے کے انداز میں اس کا گریبان چاک کرکے اور گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں، اس مظلوم خاتون کی یہ درگت وہی سستا آٹا خریدنے کی کش مکش میں بنی ہے جس کے بارے میں وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ رپورٹ دی گئی ہے کہ اب سستا آٹا وافرمقدار میں دستیاب ہے اس لئے آٹا لینے والوں کی قطاریں ختم ہوگئی ہیں۔ آج صبح گھر سے دفتر آتے ہوئے سکیم موڑ کے رمضان بازار سے گزرنے کا موقع ملا تو وہاں سستے آٹے کے ٹرک کے آگے مجبور لوگوں بشمول خواتین کی دھکم پیل میں وہی درگت بنتی نظر آئی جس کی جھلک راولپنڈی کی بے بس خاتون کی شائع ہونے والی تصویر میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ آٹے کا ایک آدھ توڑا خریدنے کی بمشکل سکت رکھنے والے افراد کیلئے تو سستے رمضان بازاروں میں دھکے ہی دھکے ہیں جبکہ متمول حضرات یہاں بھی ان کے حقوق پر ڈاکہ مارنے چلے آتے ہیں اور کوئی نہ کوئی چکر بازی کرکے اپنے ڈرائیوروں اور دیگر ملازمین کو قطاروں میں کھڑا کرکے بیک وقت آٹے کے چھ سات توڑے خریدنے کا بندوبست کرلیتے ہیں چنانچہ رمضان بازار میں مجھے آٹے کے توڑوں سے لدے ہوئے رکشائوں کے علاوہ نئی نویلی لمبی گاڑیوں کی ڈگیوں میں بھی سستے رمضان بازار سے خریدے گئے آٹے کے توڑے لائنوں میں لگے بے بس افراد کی غربت اور مجبوریوں کا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آئے، اور پھر شاہدرہ ٹائون کی تین بچوں کی ماں ایک بیوہ خاتون کی زہر کھا کر خودکشی کرنے کی خبر نے تو میرا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیا۔ خادم پنجاب تو خوش ہیں کہ ان کی مسلسل کاوشوں سے بے وسیلہ غریب انسانوں کے دن پھرنے لگے ہیں اور خوشحالی ان کے ویران گھروں کی دہلیز سے گزر کر اندر داخل ہو رہی ہے مگر لدھے شاہ حوک شاہدرہ کی مظلوم زرینہ کے گھر تک خوشحالی کی یہ لہر ابھی نہیں پہنچی تھی ورنہ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر اپنے دل پر لگنے والے گھائو کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ زہر پھانکنے پر کیوں مجبور ہوتی۔ یہ دکھ اس اکیلی بے بس خاتون کا نہیں، شاہدرہ ٹائون جیسے کئی علاقوں کے کئی گھروں میں بھوک کے ہاتھوں بے بسی کے ایسے مناظر نظر آسکتے ہیں۔ اس بیمار معاشرے کی صحتیابی کیلئے وزیراعلیٰ شہبازشریف کا جذبہ اپنی جگہ لائق تحسین ہے مگر وہ صرف ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹوں پر تکیہ نہ کریں، خوشحالی اس وقت نظر آئے گی جب کوئی زرینہ اپنے معصوم بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر خودکشی کا راستہ اختیار نہیں کرے گی جب سستے رمضان، جمعہ اور اتوار بازاروں کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور ہر چیز بشمول آٹا، چینی، گھی ہر شہر، ہر گائوں، ہر محلے، ہر گلی بازار کی ہر دکان پر وافر مقدار میں موجود ہوگی اور ہر شخص کی قوت خرید کے اندر دستیاب ہوگی، اس کیلئے اکیلے وزیراعلیٰ پنجاب کو نہیں، وفاقی اور صوبائی پوری حکومتی انتظامی مشینری کو اپنا عیش و آرام تج کر معاشرے کی بیماریوں کا علاج کرنا ہوگا۔ اب تو ممکن ہے معاشرہ کی صحتیابی کی کوئی صورت نکل آئے مگر مرض لاعلاج ہوگیا تو اس معاشرے کا نقشہ قبرستان والا ہی نظر آئے گا اور معاف کیجئے قبرستانوں پر مجاوروں کی حکومت ہوتی ہے۔
خوشحالی کی لہرمیں زرینہ کی خودکشی
Aug 31, 2009
خدا کرے کہ سب کچھ ایسا ہی ہو،خادم پنجاب کے شہروں شہروں کے دورے ان کی صحت مندی کی علامت ہیں۔ میں یہ تمنا تو نہیں کروں گا کہ وہ اپنے ان دوروں کا سلسلہ طولانی کرکے اپنی صحت خراب کر بیٹھیں مگر ان کے دوروں سے معاشرے کی صحت بھی درست ہو رہی ہے اس لئے اس میری یہ تمنا ضرور ہوگی کہ وہ غربت کی اتھاہ گہرائیوں اور مایوسیوں میں ڈوبے اس بیمار معاشرے کی مکمل صحت یابی تک اپنے چھاپہ مار پروگرام کو جاری رکھیں۔ وہ مستعد نظر آئیں گے تو معاشرے کی صحت کی خرابی کا باعث بننے والی انتظامی مشینری بھی ’’شرمو شرمی‘‘ مستعدی دکھاتی رہے گی، چاہے اوپر اوپر سے ہی پکڑ دھکڑ کرے، اس سے معاشرے کی اصلاح کی کوئی نہ کوئی گجائش تو پیدا ہوتی ہی رہے گی اور ممکن ہے میرے جیسے قنوطیوں کوبھی گلاس کو آدھا خالی سمجھنے کے بجائے آدھا بھرا ہوا دیکھنے کی عادت پڑ جائے۔ ورنہ تو وزیراعلیٰ پنجاب گزشتہ روز مظفر گڑھ کے سستے رمضان بازار میں عوام الناس بشمول غریب خواتین کو روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء کی سستے داموں عام دستیابی کی یقین دہانی کر رہے تھے مگر میری نگاہیں راولپنڈی کی اس دہشت زدہ ادھیڑ عمرخاتون کی تصویر پر جمی ہوئی تھیں جسے دو خواتین اہلکار نوچنے کے انداز میں اس کا گریبان چاک کرکے اور گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں، اس مظلوم خاتون کی یہ درگت وہی سستا آٹا خریدنے کی کش مکش میں بنی ہے جس کے بارے میں وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ رپورٹ دی گئی ہے کہ اب سستا آٹا وافرمقدار میں دستیاب ہے اس لئے آٹا لینے والوں کی قطاریں ختم ہوگئی ہیں۔ آج صبح گھر سے دفتر آتے ہوئے سکیم موڑ کے رمضان بازار سے گزرنے کا موقع ملا تو وہاں سستے آٹے کے ٹرک کے آگے مجبور لوگوں بشمول خواتین کی دھکم پیل میں وہی درگت بنتی نظر آئی جس کی جھلک راولپنڈی کی بے بس خاتون کی شائع ہونے والی تصویر میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ آٹے کا ایک آدھ توڑا خریدنے کی بمشکل سکت رکھنے والے افراد کیلئے تو سستے رمضان بازاروں میں دھکے ہی دھکے ہیں جبکہ متمول حضرات یہاں بھی ان کے حقوق پر ڈاکہ مارنے چلے آتے ہیں اور کوئی نہ کوئی چکر بازی کرکے اپنے ڈرائیوروں اور دیگر ملازمین کو قطاروں میں کھڑا کرکے بیک وقت آٹے کے چھ سات توڑے خریدنے کا بندوبست کرلیتے ہیں چنانچہ رمضان بازار میں مجھے آٹے کے توڑوں سے لدے ہوئے رکشائوں کے علاوہ نئی نویلی لمبی گاڑیوں کی ڈگیوں میں بھی سستے رمضان بازار سے خریدے گئے آٹے کے توڑے لائنوں میں لگے بے بس افراد کی غربت اور مجبوریوں کا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آئے، اور پھر شاہدرہ ٹائون کی تین بچوں کی ماں ایک بیوہ خاتون کی زہر کھا کر خودکشی کرنے کی خبر نے تو میرا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیا۔ خادم پنجاب تو خوش ہیں کہ ان کی مسلسل کاوشوں سے بے وسیلہ غریب انسانوں کے دن پھرنے لگے ہیں اور خوشحالی ان کے ویران گھروں کی دہلیز سے گزر کر اندر داخل ہو رہی ہے مگر لدھے شاہ حوک شاہدرہ کی مظلوم زرینہ کے گھر تک خوشحالی کی یہ لہر ابھی نہیں پہنچی تھی ورنہ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر اپنے دل پر لگنے والے گھائو کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ زہر پھانکنے پر کیوں مجبور ہوتی۔ یہ دکھ اس اکیلی بے بس خاتون کا نہیں، شاہدرہ ٹائون جیسے کئی علاقوں کے کئی گھروں میں بھوک کے ہاتھوں بے بسی کے ایسے مناظر نظر آسکتے ہیں۔ اس بیمار معاشرے کی صحتیابی کیلئے وزیراعلیٰ شہبازشریف کا جذبہ اپنی جگہ لائق تحسین ہے مگر وہ صرف ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹوں پر تکیہ نہ کریں، خوشحالی اس وقت نظر آئے گی جب کوئی زرینہ اپنے معصوم بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر خودکشی کا راستہ اختیار نہیں کرے گی جب سستے رمضان، جمعہ اور اتوار بازاروں کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور ہر چیز بشمول آٹا، چینی، گھی ہر شہر، ہر گائوں، ہر محلے، ہر گلی بازار کی ہر دکان پر وافر مقدار میں موجود ہوگی اور ہر شخص کی قوت خرید کے اندر دستیاب ہوگی، اس کیلئے اکیلے وزیراعلیٰ پنجاب کو نہیں، وفاقی اور صوبائی پوری حکومتی انتظامی مشینری کو اپنا عیش و آرام تج کر معاشرے کی بیماریوں کا علاج کرنا ہوگا۔ اب تو ممکن ہے معاشرہ کی صحتیابی کی کوئی صورت نکل آئے مگر مرض لاعلاج ہوگیا تو اس معاشرے کا نقشہ قبرستان والا ہی نظر آئے گا اور معاف کیجئے قبرستانوں پر مجاوروں کی حکومت ہوتی ہے۔