قصہ چہار وزیر !

ہمارے مخبر اعلیٰ کی طرف سے آنے والی تازہ ترین خبر کے مطابق ایک اہم وفاقی وزیر یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت کی غرض سے اس سال شمالی یورپ کے ایک ملک تشریف لے گئے۔ جاتے جاتے موصوف چار افراد کو بھی اپنے ہمراہ یہ کہہ کر لے گئے کہ یہ لوگ میرے وفد کا حصہ ہیں۔ تاہم چاروں اشخاص مذکورہ ملک پہنچتے ہی دائیں بائیں ہو گئے اور تاحال لاپتہ ہیں۔ مخبر کا کہنا ہے کہ وزیر محترم نے چاروں افراد سے فی کس بارہ لاکھ روپے وصول کرکے اپنے آپ کو ازلی اور ابدی ضرورت مند ثابت کر دیا ہے۔
مذکورہ وزیر کے ساتھ ہمیں واحد اختلاف بس یہی ہے کہ یہ حضرت ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی کارنامہ سرانجام دیتے ہی رہتے ہیں مگر تقریباً ہر کارنامے کے فوراً بعد ایکسپوز بھی ہو جاتے ہیں، دیکھنے میں تو کافی سمجھدار لگتے ہیں مگر یہ باتیں انتہا درجہ ناسمجھی کی ہیں۔ چنانچہ ہم ذاتی طور پر یہ ہی سمجھیں گے کہ یہ واقعہ اگر ہوا ہے تو بیچارے وزیر سے بالا بالا ہی ہوا ہے کیونکہ کوئی بھی سیانا شخص اس قماش کی حرکت کر ہی نہیں کر سکتا۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چاروں مذکورہ بھگوڑے وزیر محترم کے خاص ورکر ہوں اور کسی شدید سیاسی مصلحت اور مجبوری کی بنا پر موصوف کو یہ کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا ہو بہرحال، اصلی تشویش ہمیں اس بات کی ہے کہ متعلقہ سفارت خانہ تو کھپ ڈال کر اس حکومت کی رہی سہی مٹی بھی پلید کر ڈالے گا جب کہ رہی سہی کسر وزیر باتدبیر کے سیاسی مخالفین نکال دیں گے کہ اس طرح کی باتیں زیادہ دیر چھپی نہیں رہتیں۔
اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کا ہر تیسرا وزیر آج کل کسی نہ کسی سکینڈل میں ضرورت ملوث نظر آتا ہے۔ یہ دوست صبح و شام الزامات کی بوچھاڑ کا سامنا کرتے رہتے ہیں اور ظاہر ہے فی الحال اقبالی بیان تو کسی ایک کی طرف سے بھی نہیں آیا اور نہ ہی آنے کی توقع ہے، بلکہ ہر متعلقہ وزیر پوری شدومد کے ساتھ ان الزامات سے انکار کر رہا ہے اور ہم بھی حسن ظن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر وضاحت اور ہر صفائی پر سر تسلیم خم ہی کرتے چلے جا رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے ہم نے وزیر صنعت و پیداوار میاں منظور احمد وٹو کے بارے میں ادھر ادھر ہونے والی چہ میگوئیاں بارے کچھ قلم زنی کا ارتکاب کیا تھا۔ میاں صاحب کا فون آیا اور ایک طویل عرصے بعد موصوف کی ڈیپریشن میں ڈوبی آواز سننے کا اتفاق ہوا۔ دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی فرمائش کی کہ ان کے وضاحتی خط کو ہم اپنے کالم میں ضرور شامل کریں تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی اُجاگر ہو سکے مگر جب موصول ہوا دیکھ کر یوں لگا جیسے حضرت خط نہیں بلکہ کتاب لکھنے کا ارادہ کر چکے تھے بس کسی مصلحت کے تحت ہم پر رحم کھا گئے اور محض خط پر ہی اکتفا کر لیا۔ چنانچہ خط کی طوالت کے سب ہم آج کی گپ شپ یہیں پر ختم کرتے ہیں تاکہ موصوف کا محبت نامہ من و عن شامل کیا جا سکے۔ آج ہم نے تذکرہ تو کرنا تھا چار عدد وزیروں کا مگر جگہ کی قلت کے سبب آج فقط دو پر ہی اکتفا کیجئے، باقی آئندہ! اور میا ں صاحب کا خط:
عزیزی آفتاب اقبال صاحب!
السلام علیکم! مزاجِ گرامی!
آپ کا کالم حسب حال نظر سے گزرا، آپ نے اپنے مخصوص انداز میں میری اور میری وزارت کی گوشمالی کی ہے۔ اور ساتھ ہی کچھ مفید مشوروں سے بھی نوازا ہے۔ میں اس کرم فرمائی کیلئے آپ کا سپاس گزار ہوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو چند گزارشات پیش خدمت کروں امید ہے آپ انہیں اپنے خوبصورت کالم کی زینت بنانے کا شرف بخشیں گے۔ میرے اسلوب سیاست اور ذاتی معاملات سے آپ خوب واقف ہیں۔ میں نے پوری زندگی دیانتداری اور سخت محنت کو اپنا شعار بنائے رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میرے خاندان کی آج بھی وہی پراپرٹی ہے جو آج سے پچیس سال پہلے تھی۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ 1998ء میں اپنے دور اقتدار سے پہلے اور بعد کے اپنے خاندان کے اثاثوں کا روزنامہ جنگ سمیت قومی اخبارات میں بذریعہ اشتہارات اعلان کیا آج بھی میں اس ڈکلیریشن پر قائم ہوں۔ اس میں میرے بچوں نے ایک عدد سکول اور ایک پٹرول پمپ کا اضافہ کیا ہے۔
یہ درست ہے کہ رب العزت کے کرم سے میرے علاقے کے لوگوں نے مجھے اپنی محبت سے نوازا اور پوے ملک کے اندر یہ منفرد اعزاز بخشا کہ آزاد حیثیت میں مجھے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب کیا اور میری بیٹی کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب کیا اور میرے بیٹے کو ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب کیا۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے مجھے وزارت صنعت و پیداوار کے منصب سے نوازا۔ میں نے وزارت صنعت و پیداوار کے حصول کیلئے پارٹی قیادت سے نہ کبھی مطالبہ کیا اور نہ کوشش کی۔ پارٹی نے خود اس کا فیصلہ کیا اور میں نے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے اس کو قبول کیا۔
میں یونین کونسل کے چیئرمین سے لیکر دو مرتبہ ضلع کونسل کا چیئرمین ، چار مرتبہ صوبائی اسمبلی کا ممبر، چار مرتبہ قومی اسمبلی کا ممبر، تین مرتبہ سپیکر صوبائی اسمبلی، اور دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب آئینی طریقے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوا ہوں۔ الحمد اللہ! میرے سیاسی کیریئر پر ایک بھی نامزدگی کا داغ نہیں ہے۔ آپ کی واقفیت کیلئے عرض کروں کہ سیاست میں کوئی کسی پر رحم نہیں کرتا۔
انگریزی میں اس کیلئے کہتے ہیں
\\\"Its a Game of Survival for the Fittest.\\\"
آپ نے میری عمر اور محنت پر زور دیا ہے میں خداوندتعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے صحت مند زندگی عطاء کی ہے۔ میں روزانہ سولہ سترہ گھنٹے منظم طریقے سے محنت کرتا ہوں۔ میرا طویل کیرئیر جس میں زندگی کی ٹھوکریں پارلیمانی اور انتظامی تجربہ اور میرا سیاسی مقام میری قوم کی امانت ہے۔ اور جب تک اللہ تعالیٰ نے توفیق دی شبانہ روز محنت کے ذریعے پرخلوص طریقے سے اپنی قوم کو لوٹاتا رہوں گا۔ انگریزی کا مشہور قول ہے۔
\\\"Anyone who stops Iearning is old, Whether at Twenty
or eighty. Anyone who Keeps learning stays young.\\\"
آپ نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے میری مخالفت کا ذکر کیا ہے میں ان کی بے حد عزت کرتا ہوں اس لئے کہ وہ سیلف میڈ ہیں میرا اور ان کا تعلق ایک ہی سیاسی برادری سے ہے اور انہوں نے سخت محنت کے ذریعے اپنے پائوں پر کھڑے ہوکر پاکستانی سیاست میں اپنا مقام بنایا ہے میں ویسے بھی ملک میں موجود قومی مفاہمت کی فضا کو قائم رکھنے کا زبردست حامی ہوں اس لئے کہ موجودہ گھمبیر مسائل اور چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کا قومی یکجہتی کے بغیر اور کوئی حل نہیں ہے۔
1995ء میں میرے وزارت اعلیٰ سے ہٹنے کے بعد میرے اور میرے خاندان کے خلاف بارہ مقدمات بنائے گئے اور میرے بیٹے سمیت میرے خاندان کے سبھی قابل ذکر افراد کو پابند سلاسل کیا گیا یہ سیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے۔ اعلیٰ عدالتوں نے مجھے اور میرے خاندان کے افراد کو سب مقدمات میں باعزت بری کیا اس لئے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں نے ثابت کر دیا کہ میری سیاست صاف اور شفاف ہے۔
میری پریس کانفرنس کا آپ نے مخولیہ انداز میں ذکر کیا ہے۔ حالانکہ 1994ء سے لے کر جب میری وزارت اعلیٰ میں آپ میرے میڈیا ایڈوائزر تھے تو آپ میری پریس ہینڈلنگ کی تعریف کرتے رہے ہیں اور بعد میں کچھ عرصہ سے آپ سے رابطے میں کمی رہی اس کو میں دور کرنے کی کوشش کروں گا۔
والسلام ۔آپ کا خیر اندیش ۔میاں منظور احمد وٹو ۔وفاقی وزیر صنعت و پیداوار اسلام آباد

ای پیپر دی نیشن