اسے سیاست میں بھونچال کہیں، طوفان یا زلزلہ، مگر ذوالفقار مرزا کی پریس کانفرنس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اُن کی شعلہ بیانی اور آتش فشانی نے صرف حریفوں کو ہی پر و بال تک آگ نہیں لگائی اس کی کچھ چنگاریاں اپنے آشیانے پر بھی آن گری ہیں۔ ایسے لگتا تھا کہ اگر انہوں نے سچ نہ اُگلا تو اُن کا سینہ پھٹ جائے گا۔ وہ صورت برق گرے تو ایک لمحے کے اُجالے میں بہت کچھ نظر آ گیا۔ انہوں نے قرآن مجید سر پر رکھ کر کہا کہ الطاف حسین نے انہیں بتایا تھا کہ امریکہ نے پاکستان توڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس ضمن میں وہ اور اُن کی پارٹی امریکہ کا ساتھ دے گی، مزید برآں یہ کہ وہ پٹھانوں کو اسی طرح قتل کرتے رہیں گے۔ دوسری بات مرزا صاحب نے اس خط کے حوالے سے کی جو الطاف حسین نے ٹونی بلیئر کو لکھا تھا کہ وہ ان کے لئے لاکھوں لوگ کراچی کی سڑکوں پر لا سکتے ہیں اور یہ کہ انہیں آئی ایس آئی کو ختم کرنا چاہئے وگرنہ کئی اسامہ پیدا ہوں گے۔
یہ پریس کانفرنس لوگوں نے سُنی تو سکتے میں آ گئے۔ وہ سراسمیگی، تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اگرچہ متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بیہودہ اور شرانگیز ہیں، اس سے پیشتر بھی جناح پور کی سازش سے پردہ اُٹھ چکا ہے۔ لیکن پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام ذوالفقار مرزا کے حلفیہ بیان کو ہضم نہیں کر پائیں گے۔ ذوالفقار مرزا نے علی الاعلان کہا کہ ولی خان بابر کا قتل ایم کیو ایم کے غنڈوں نے کیا۔ انہوں نے نام لے کر کہا کہ لیاقت کی گاڑی استعمال ہوئی۔ ہمارا دھیان ایامِ رفتہ کی طرف چلا گیا جب عظیم محبانِ وطن اور بے مثل قومی رہنما حکیم سعید اور محمد صلاح الدین کو شہید کیا گیا۔ ولی خان بابر کی طرح اُن کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔ ایک لمحے کے لئے ذہن کی سکرین پر 12 مئی کی فلم چلنے لگی جس میں سڑکوں پر لاشے پڑے تھے اور کچھ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے، تب بھی مگرمچھ کے آنسو کوئی بہا رہا تھا اور آنکھوں کا نور کھونے والے برباد اور خانما خراب کوئی اور تھے۔
پورے پاکستان کو معلوم ہے کہ کراچی میں قتل و غارت مفادات کی جنگ ہے جہاں زمیں مہنگی اور خون سستا ہو چکا ہے۔ وہاں تھانے بکتے ہیں ظاہر ہے اس سے مراد تھانے کی عمارت تو نہیں، علاوہ ازیں بھرتیوں میں کوٹے کا تعین کیا ہے؟ مرزا صاحب نے کوئی تیر اپنے ترکش میں نہیں چھوڑا۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنی بات کر دی ہے اب حکومت اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیا کرتی ہے گویا
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا
ویسے ہم ایک سینئر تجزیہ کار سے متفق ہیں جو نہایت خوشی سے بتا رہا تھا کہ مرزا صاحب نے اپنا مستقبل تباہ کر لیا ہے۔ بات تو ٹھیک ہے کہ آپ یکمشت ہر منصب سے دستبردار ہو گئے اور بقول ممتاز بھٹو کے سندھ کے عوام صاحبِ اقتدار کے پیچھے ہوتے ہیں۔ بہرحال آپ ہماری بات چھوڑیں دل کو زبان پر لانے میں جو اطمینان اور سکون ملتا ہے وہ مرزا صاحب ہی جانتے ہیں۔ ہم تو مرزا صاحب کو عدم کا شعر پیش کر سکتے ہیں
عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
مگر جلد بازی کیسے۔ مرزا صاحب نے بہت دیر برداشت کیا اپنے اربابِ بست وکشاد کو، سب کچھ بتایا مگر ان کی بات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا کہ حکمران مصالحت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں انہیں بہت کچھ درگزر کرنا ہوتا ہے۔ یہی چشم پوشی ہمارا المیہ بن جاتی ہے۔ فیصلہ تو سپریم کورٹ کو لینا ہے اور وہ ان الزامات کی تہہ تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرے گی۔ خوشی ہمیں اس بات پر ہے کہ ذوالفقار مرزا نے مسلمان ہونے کے ناتے قرآنِ فرقان کو گواہ بنایا اور ان کی زبان سے ہمارے وطن کی سالمیت اور بقا کی باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ اب پوری قوم نہیں جاگی جائے گی انشاءاللہ، اگر اب بھی قوم نہیں جاگی تو سمجھ لیجئے کہ مر چکی ہے ویسے سویا ہوا اور مرا ہوا ایک جیسا ہوتا ہے۔
آو فکر کریں۔ فراز نے خوب کہا تھا ع
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
یہ پریس کانفرنس لوگوں نے سُنی تو سکتے میں آ گئے۔ وہ سراسمیگی، تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اگرچہ متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بیہودہ اور شرانگیز ہیں، اس سے پیشتر بھی جناح پور کی سازش سے پردہ اُٹھ چکا ہے۔ لیکن پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام ذوالفقار مرزا کے حلفیہ بیان کو ہضم نہیں کر پائیں گے۔ ذوالفقار مرزا نے علی الاعلان کہا کہ ولی خان بابر کا قتل ایم کیو ایم کے غنڈوں نے کیا۔ انہوں نے نام لے کر کہا کہ لیاقت کی گاڑی استعمال ہوئی۔ ہمارا دھیان ایامِ رفتہ کی طرف چلا گیا جب عظیم محبانِ وطن اور بے مثل قومی رہنما حکیم سعید اور محمد صلاح الدین کو شہید کیا گیا۔ ولی خان بابر کی طرح اُن کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔ ایک لمحے کے لئے ذہن کی سکرین پر 12 مئی کی فلم چلنے لگی جس میں سڑکوں پر لاشے پڑے تھے اور کچھ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے، تب بھی مگرمچھ کے آنسو کوئی بہا رہا تھا اور آنکھوں کا نور کھونے والے برباد اور خانما خراب کوئی اور تھے۔
پورے پاکستان کو معلوم ہے کہ کراچی میں قتل و غارت مفادات کی جنگ ہے جہاں زمیں مہنگی اور خون سستا ہو چکا ہے۔ وہاں تھانے بکتے ہیں ظاہر ہے اس سے مراد تھانے کی عمارت تو نہیں، علاوہ ازیں بھرتیوں میں کوٹے کا تعین کیا ہے؟ مرزا صاحب نے کوئی تیر اپنے ترکش میں نہیں چھوڑا۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنی بات کر دی ہے اب حکومت اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیا کرتی ہے گویا
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا
ویسے ہم ایک سینئر تجزیہ کار سے متفق ہیں جو نہایت خوشی سے بتا رہا تھا کہ مرزا صاحب نے اپنا مستقبل تباہ کر لیا ہے۔ بات تو ٹھیک ہے کہ آپ یکمشت ہر منصب سے دستبردار ہو گئے اور بقول ممتاز بھٹو کے سندھ کے عوام صاحبِ اقتدار کے پیچھے ہوتے ہیں۔ بہرحال آپ ہماری بات چھوڑیں دل کو زبان پر لانے میں جو اطمینان اور سکون ملتا ہے وہ مرزا صاحب ہی جانتے ہیں۔ ہم تو مرزا صاحب کو عدم کا شعر پیش کر سکتے ہیں
عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
مگر جلد بازی کیسے۔ مرزا صاحب نے بہت دیر برداشت کیا اپنے اربابِ بست وکشاد کو، سب کچھ بتایا مگر ان کی بات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا کہ حکمران مصالحت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں انہیں بہت کچھ درگزر کرنا ہوتا ہے۔ یہی چشم پوشی ہمارا المیہ بن جاتی ہے۔ فیصلہ تو سپریم کورٹ کو لینا ہے اور وہ ان الزامات کی تہہ تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرے گی۔ خوشی ہمیں اس بات پر ہے کہ ذوالفقار مرزا نے مسلمان ہونے کے ناتے قرآنِ فرقان کو گواہ بنایا اور ان کی زبان سے ہمارے وطن کی سالمیت اور بقا کی باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ اب پوری قوم نہیں جاگی جائے گی انشاءاللہ، اگر اب بھی قوم نہیں جاگی تو سمجھ لیجئے کہ مر چکی ہے ویسے سویا ہوا اور مرا ہوا ایک جیسا ہوتا ہے۔
آو فکر کریں۔ فراز نے خوب کہا تھا ع
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا