عطاءالرحمن
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی ہنگامہ خیز پریس کانفرنس نے کراچی کے قتل عام اور غارت گری میں ملوث ایک سیاسی تنظیم کا پردہ چاک کیا ہے۔ دوسری جانب سے بھی جواب آں غزل کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان کی طرف سے جب ’حقائق‘ کو طشت ازبام کیا جائے گا تو پھر تیسرے گروہ کی باری آ جائے گی۔ صوبہ سندھ کے حکومتی اتحاد میں شریک تمام بڑی جماعتوں کے کرتوت قوم کے سامنے واشگاف ہو جائیں گے تو معلوم ہو گا کہ معصوم شہریوں کے گلے کاٹنے اور ملک کی اقتصادی شہ رگ سے خون کی ندیاں بہانے کے مکروہ فعل میں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ شریک ہے۔ کوئی بہت زیادہ کوئی بہت کم جبکہ تیسرا بھی اپنی استطاعت کے لحاظ سے پیچھے نہیں۔ یہ سیاسی اتحادیوں کے مابین لسانی فساد اور کراچی میں قبضہ جمائے رکھنے کی جنگ ہے۔ بھتہ خوری کے بازار ان سب نے سجائے ہوئے ہیں۔ لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کے افراد یعنی انڈر ورلڈ کے لوگ انہی کے سایہ تلے سرگرم عمل ہیں چنانچہ کراچی کی دہشت گردی میں ایک نہیں درجہ بدرجہ وہاں کے تمام حکمران ملوث ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ہر گروہ کے افراد کا بلا امتیاز تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس کے بغیر اس کے شہر پُرآشوب میں امن قائم ہو گا نہ وہاں پر پھیلے ہوئے فساد کو بقیہ ملک میں در آنے سے روکا جا سکے گا۔
چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا بنچ کراچی کے مجرموں کا تعین کرنے کے لئے از خود نوٹس پر مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ اس سے بڑی خبر برآمد ہو سکتی ہے۔کیونکہ سپریم کورٹ نہایت غیر جانبداری کے ساتھ ہر جماعت و تنظیم کے مجرموں کے کردار کو واضح کرے گا اور عدالت عظمی کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد حقیقی مجرموں کو قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دینا بھی ممکن ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری اور لازمی ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے کام میں کسی بھی حوالے سے کوئی رکاوٹ نہ پیدا کرے اور اس کے احکام پر عمل کرنے میں کسی لیت و لعل سے کام نہ لے جیسا کہ اس نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ کراچی میں دہشت گردی کے مجرموں کو سزا دیتے وقت ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی اور ان کی سرپرستی میں کام کرنے والی ذیلی تنظیموں کا جب تک پوری طرح اور حقیقی معنوں میں محاسبہ نہیں ہو جاتا۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے لیکن یہ کام کرے گاکون یہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ ظاہر ہے رحمن ملک اور ڈاکٹر عشرت العباد وغیرہم کی موجودگی میں توقع نہیں کی جا سکتی۔
کراچی پر جو آسیب طاری ہے اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے پہلا اور ضروری کام یہ بھی ہے کہ اس شہر پے پناہ سے غیر قانونی اسلحے کا مکمل طور پر صفایا کر دیا جائے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی سے پوری طرح واضح ہو جائے گا۔ ریاستی اور حکومتی ایجنسیوں سے یہ بات ہر گز چھپی ہوئی نہیں ہے کہ کس گروہ کے کون سے افراد نے کن مقامات پر اسلحے کے ڈھیر جمع کر رکھے ہیں۔ مسئلہ فیصلہ کن طریقے اور پورے عزم کے ساتھ رو لحاظ رکھے بغیر اس کارروائی کا آغاز کرنا اور اسے طے شدہ وقت کے اندر پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو موجودہ حکومت کے بس کا روگ نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ راقم پہلے بھی لکھ چکا ہے زرداری جمع گیلانی حکومتPart of the Solutionہونے کی بجائے Part of the problem ہے۔ اسی لیے وہ تمام تر باہمی رنجش اور مقابلہ آرائی کے باوجود ایم کیو ایم کو بار بار وزارتوں میں دوبارہ شرکت کی دعوت دیتی ہے تاکہ جب کڑے امتحان کا موقع آئے تو دونوں ایک دوسری کے ساتھ کھڑی ہو جائیں۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ اپنا فیصلہ صادر کرنے کے ساتھ کسی غیر جانبدار ریاستی ادارے کو کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کا فرض سونپ سکتی ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی ہنگامہ خیز پریس کانفرنس نے کراچی کے قتل عام اور غارت گری میں ملوث ایک سیاسی تنظیم کا پردہ چاک کیا ہے۔ دوسری جانب سے بھی جواب آں غزل کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان کی طرف سے جب ’حقائق‘ کو طشت ازبام کیا جائے گا تو پھر تیسرے گروہ کی باری آ جائے گی۔ صوبہ سندھ کے حکومتی اتحاد میں شریک تمام بڑی جماعتوں کے کرتوت قوم کے سامنے واشگاف ہو جائیں گے تو معلوم ہو گا کہ معصوم شہریوں کے گلے کاٹنے اور ملک کی اقتصادی شہ رگ سے خون کی ندیاں بہانے کے مکروہ فعل میں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ شریک ہے۔ کوئی بہت زیادہ کوئی بہت کم جبکہ تیسرا بھی اپنی استطاعت کے لحاظ سے پیچھے نہیں۔ یہ سیاسی اتحادیوں کے مابین لسانی فساد اور کراچی میں قبضہ جمائے رکھنے کی جنگ ہے۔ بھتہ خوری کے بازار ان سب نے سجائے ہوئے ہیں۔ لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کے افراد یعنی انڈر ورلڈ کے لوگ انہی کے سایہ تلے سرگرم عمل ہیں چنانچہ کراچی کی دہشت گردی میں ایک نہیں درجہ بدرجہ وہاں کے تمام حکمران ملوث ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ہر گروہ کے افراد کا بلا امتیاز تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس کے بغیر اس کے شہر پُرآشوب میں امن قائم ہو گا نہ وہاں پر پھیلے ہوئے فساد کو بقیہ ملک میں در آنے سے روکا جا سکے گا۔
چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا بنچ کراچی کے مجرموں کا تعین کرنے کے لئے از خود نوٹس پر مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ اس سے بڑی خبر برآمد ہو سکتی ہے۔کیونکہ سپریم کورٹ نہایت غیر جانبداری کے ساتھ ہر جماعت و تنظیم کے مجرموں کے کردار کو واضح کرے گا اور عدالت عظمی کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد حقیقی مجرموں کو قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دینا بھی ممکن ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری اور لازمی ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے کام میں کسی بھی حوالے سے کوئی رکاوٹ نہ پیدا کرے اور اس کے احکام پر عمل کرنے میں کسی لیت و لعل سے کام نہ لے جیسا کہ اس نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ کراچی میں دہشت گردی کے مجرموں کو سزا دیتے وقت ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی اور ان کی سرپرستی میں کام کرنے والی ذیلی تنظیموں کا جب تک پوری طرح اور حقیقی معنوں میں محاسبہ نہیں ہو جاتا۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے لیکن یہ کام کرے گاکون یہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ ظاہر ہے رحمن ملک اور ڈاکٹر عشرت العباد وغیرہم کی موجودگی میں توقع نہیں کی جا سکتی۔
کراچی پر جو آسیب طاری ہے اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے پہلا اور ضروری کام یہ بھی ہے کہ اس شہر پے پناہ سے غیر قانونی اسلحے کا مکمل طور پر صفایا کر دیا جائے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی سے پوری طرح واضح ہو جائے گا۔ ریاستی اور حکومتی ایجنسیوں سے یہ بات ہر گز چھپی ہوئی نہیں ہے کہ کس گروہ کے کون سے افراد نے کن مقامات پر اسلحے کے ڈھیر جمع کر رکھے ہیں۔ مسئلہ فیصلہ کن طریقے اور پورے عزم کے ساتھ رو لحاظ رکھے بغیر اس کارروائی کا آغاز کرنا اور اسے طے شدہ وقت کے اندر پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو موجودہ حکومت کے بس کا روگ نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ راقم پہلے بھی لکھ چکا ہے زرداری جمع گیلانی حکومتPart of the Solutionہونے کی بجائے Part of the problem ہے۔ اسی لیے وہ تمام تر باہمی رنجش اور مقابلہ آرائی کے باوجود ایم کیو ایم کو بار بار وزارتوں میں دوبارہ شرکت کی دعوت دیتی ہے تاکہ جب کڑے امتحان کا موقع آئے تو دونوں ایک دوسری کے ساتھ کھڑی ہو جائیں۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ اپنا فیصلہ صادر کرنے کے ساتھ کسی غیر جانبدار ریاستی ادارے کو کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کا فرض سونپ سکتی ہے۔