بے نظیر انکم سپورٹ صرف نمائشی پروگرام

 پیپلز پارٹی جب بھی اقتدار میں آئی اس نے عوامی خدمات کے بہانے کچھ ایسے پروگرام شروع کیے جن سے غربت تو کم نہ ہوسکی البتہ پسندیدہ لوگوں کو ضرور نوازا گیا۔ موجودہ دور میں بھی بینظیر انکم سپورٹ جیسا نمائشی پروگرام بھی ایک نئی ایجاد کے طور پر سامنے آیا ہے اس پروگرام کی نقل تو دوسرے ممالک کی کرلی لیکن پروگرام میں جذبہ ان جیسا نہ پیدا کرا سکے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ قومی خزانے کا انتہائی حجم رکھتا ہے۔اس پروگرام کے زیادہ تر وسائل عالمی بنک سے سود پر بطور قرض لیے گئے ہیں اور کچھ وسائل ترقیاتی بجٹ کی مختص رقوم سے کاٹ کر اس پروگرام کی نذر کیے گئے ہیں۔
اس پروگرام کے بارے میں ہماری قوم کا پڑھا لکھا طبقہ انتہائی اہم روئیے رکھتا ہے جو کہ قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
 وزارت خزانہ کے افسروں نے آصف علی زرداری صاحب کو ایک سمری کے ذریعے ایک تجویز دی تھی کہ محترمہ کے نام پرجو ملکی اور غیر ملکی اثاثے ہیں جن میں ڈالرز اور پاﺅنڈز بھی اکاﺅنٹ میں ہیں ان سب کی مالیت کئی بلین ڈالرز میں ہے محترمہ کی دولت کو اُن کے نام پر 'Foundation' بنا کر اس کے حوالے کی جائے تاکہ غرباءاور مساکین کی ضروریات ان وقف شدہ مالی وسائل سے پوری ہوسکیں جس کا ثواب محترمہ کی نذر ہوگا۔ لیکن جناب زرداری صاحب نے اس تجویز کو رد کردیا اور یوں قومی وسائل پر مبنی ایک سماجی پروگرام ” بی بی “ کے نام پر شروع کردیا۔
اس سماجی پروگرام ’ ’ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“ کی خدمات کیاہیں؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں؟ ان سب کا جاننا انتہائی ضروری ہے۔ چند ہزار کی رقوم کی تقسیم سے نہ تو غربت دور ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی اہم معاشی مقصد پوراہوسکتا ہے جو کہ ایک خاندان کی قسمت کو بدل سکے۔اس پروگرام کا سارا سرمایہ ڈویلپمنٹ کے بجٹ سے لیا گیا ہے اور مزید ورلڈ بنک کا قرض بھی شامل ہے جو کئی دہائیوں تک قوم کو یرغمال بنائے رکھے گا۔
 رقوم کی تقسیم کے نظام میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے اہم اختیار رکھتے ہیں اور خاضی رقم غریب عوام کے نام پہ ہتھیا لی جاتی ہے اور باقی جو بچتی ہے وہ نادار قوم کے افراد میں ” بی بی“ کے نام دلوں میں نقش کرنے کیلئے خیرات کی شکل میں حوالے کی جاتی ہے اور یوں پیغام دیا جاتا ہے کہ ” ہمارے شکر گزار رہو اور بی بی کا ورد جاری رکھو“۔
اگر یہی رقوم ایک ترقی پذیر منصوبے کی شکل میں صحت اور تعلیم کو فروغ دینے کیلئے استعما ل کی جاتی اور نوکر شاہی کی بجائے سول سوسائٹی جو کہ سماجی خدمات کا اعلیٰ ریکارڈ رکھتی ہے اس کے حوالے کی جاتی تو ہم یقینی طورپر ایک نیا سماجی انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ اس بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے غریب کوبھکاری بنا دیا گیا اور قوم کو بھی کئی بلین روپوں کا سود بھی ادا کرنا ہوگا۔قوم بھی یرغمال بن گئی اور پروگرام بھی نمائش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن