”میری لاش کو خطرہ ہے“

میں نے لاپتہ ظہیر جمیل کی تصویر دیکھی تو ابھی تک ایک نمناک افسردگی میں ڈوب ڈوب کر ابھر رہا ہوں۔ ایسے خوبصورت نوجوان میں نے کم کم دیکھے ہیں۔ مجھے اس کے بھائی کیپٹن خاور جمیل نے ایک کہانی سنائی۔ یہ کہانی میں نے اپنے وطن کے ٹوٹے پھوٹے لوگوں سے کئی بار سُنی ہے۔ اس کہانی کا کوئی عنوان نہیں۔ میں نے ظہیر جمیل کی غمزدہ ماں کی تحریر بھی پڑھی ہے جو چیف جسٹس پاکستان کے نام ایک درخواست کی شکل میں ہے۔ اس ملک میں ظلم و ستم قتل و غارت بے انصافی اور زیادتی کی انتہا ہو گئی ہے۔ اب ہر مظلوم اور بے بس آدمی یہ سمجھتا ہے کہ چیف جسٹس ہی مجھے انصاف دے گا اور نجات دلائے گا۔ لوگوں نے چیف جسٹس کو لیڈر اور حکمران سے کچھ زیادہ سمجھ لیا ہے۔ یہ ممکن نہیں مگر اس ملک میں نظام عدل اتنا مضبوط ہو کہ وہ نظام فضل کی طرح لگے۔ اب تو حد ہو گئی ہے۔ انقلاب آئے ورنہ کوئی عذاب آئے جو ظالموں کو بھی برباد کر دے۔ مظلوم سوچتے ہیں کہ بے شک ہمیں انصاف نہ ملے مگر کچھ بے انصافی ظالموں کے ساتھ بھی ہو۔ ان کے ساتھ بے انصافی یہ ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
یہ کیسے دوست ہیں۔ اب دوستی کا زمانہ بھی ختم ہوا۔ ظہیر جمیل کو مرحوم ظہیر جمیل لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ ماں کی طرف سے درخواست اور بھائی خاور جمیل کی طرف سے تحریر میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ظہیر جمیل کو بازیاب کرایا جائے۔ کاش وہ زندہ ہو۔ یہ کیا ظلم ہے کہ ماں بیٹے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کی لاش کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کے دل میں کیا گزر رہی ہو گی۔ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ یہ جدائی موت سے زیادہ دردناک ہے۔ دیدار کراﺅ یا آخری دیدار کراﺅ۔ جان کے خطرے سے بات آگے نکل گئی ہے۔ میری لاش کو خطرہ ہے۔ اس کے ”دوستوں“ کے لئے یہ سزا کافی ہے کہ اسے زندہ بازیاب کرا لیا جائے۔ یہ کام پولیس کا ہے اور میں ایک نرم گوشہ پولیس والوں کے لئے رکھتے ہوئے بھی ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ پولیس والوں نے قربانیاں دیں۔ شہید بھی ہوئے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کی جان کی حفاظت کرنے کی کوشش کی۔ وہ یہ کام افسروں حکمرانوں امیر کبیر انسانوں اور خاص لوگوں کے لئے کرتے ہیں۔ اس دوران عام لوگوں کا بھی بھلا ہو جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
پولیس کو اس حادثے کا سبب علم ہے۔ ظہیر جمیل کے تین دوست عظیم اقبال راحیل مسیح اور یوسف اُسے گھر سے بلا کے لے گئے۔ عظیم اس کا کلاس فیلو بھی ہے۔ تینوں کو دوست کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ظہیر جمیل ان کا دوست تھا تو اس کے لئے بھی دل میں تشویش ہوتی ہے۔ پولیس والوں کے لئے تشویش اور تفتیش ایک چیز ہے۔ ایک گھنٹے بعد طاہر جمیل کو فون پر بتایا گیا کہ تمہارا بھائی بی آر بی نہر میں کھیرا پل جلو موڑ کے مقام پر ڈوب گیا ہے۔ ماں نے دل تھام کے اس حادثے کو اللہ کا حکم سمجھ کر قبول کر لیا اور بیٹے کی لاش کی تلاش شروع کر دی۔ ون فائیو پر پولیس کو اطلاع دی 1122۔ واٹر ریسکیو کو بلایا اور دس دنوں تک بہتے ہوئے پانی کی منت سماجت کرتے رہے۔ جبکہ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ بی آر بی نہر کی پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لاش ضائع ہوئی ہو یا گم ہو گئی ہو۔ یہ نہر تو بڑی لجپال ہے۔ قائداعظمؒ کی لاڈلی نہر نے 1965ءکی جنگ میں ہندو جارحیت کو منہ توڑ جواب دیا۔ دشمنوں کو اس نہر کی دہشت نے روکے رکھا اور لاہور بچ گیا۔ اس میں گرنے والے ہندو دشمنوں کی لاشیں بھی محفوظ رہیں۔ اپنے دوست کے ساتھ کوئی اور واردات ظہیر جمیل کے ”سابق دوستوں“ نے کی۔ اور الزام ایک محب وطن محافظ لاہور پاکستانی نہر پر لگا دیا۔ یہ بابائے قوم قائداعظم کی بہت پیاری نہر کی توہین ہے۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ یہ جرم اُس جرم سے کم نہیں کہ مجرموں اور ظالموں نے دوستی کے مرتبے کو بدنام کیا ہے۔ اپنے ہی دوست کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اصل میں یہ اپنے آپ کے ساتھ دھوکہ ہے۔ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ یہ جرم چھپ جائے گا تو یہ ان کی بھول ہے۔ پولیس کے ظالمانہ رویے کے باوجود وہ شرمندہ ہوں گے۔ پولیس ظالموں کی ساتھی کیوں بن جاتی ہے۔ ہمارے علاقے میں دو دوست ویرانے میں تھے۔ ایک کی نیت خراب ہو گئی اس نے دوست سے رقم چھین لی اور اُسے قتل کرنے لگا کہ یہاں کوئی نہیں ہے کون اس کی گواہی دے گا۔ بارش ہو رہی تھی ویرانیاں اور وسعتیں مل کر دھمال ڈال رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ بارش کے قطرے میرے گواہ ہیں۔ برسوں بعد یہی قطرے رکھنے عدالت میں لے گئے۔ بارش ہوتی تھی تو قاتل دیوانہ ہو جاتا تھاوہ خود پیش ہو گیا اور قتل کا اعتراف کر لیا۔ بی آر بی نہر کا تڑپتا ہوا پانی جھوٹے دوستوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
پولیس مظلوموں کی دلجوئی کے لئے بنائی گئی ہے۔ سب انسپکٹر رانا لیاقت اور غلام محمد غمزدہ گھر میں گئے ہیں؟ غلام محمد کے بقول رانا لیاقت ملزم عظیم کا قریبی عزیز ہے جبکہ ظہیر کی ماں سب انسپکٹر رانا لیاقت کو اس واقعے کا ماسٹر مائنڈ سمجھتی ہے۔ وہی اپنا اثر و رسوخ اور سرمایہ ملزموں کی حمایت کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ مگر حیرت یہ ہے کہ پولیس افسران بھی رانا لیاقت کی ”لیاقتوں“ کے سامنے بے بس ہیں۔ شہباز شریف کی توجہ اس طرف دلوائی گئی تو انہوں نے ڈی آئی جی میجر مبشر اللہ کو انکوائری افسر بنایا۔ خدا کرے وہ کوئی خوشخبری سنا سکے۔! انہوں نے باٹاپور پولیس اور سی آئی اے سول لائنز کے افسران کو مجرمانہ غفلت کا مرتکب ٹھہرایا اور سخت محکمانہ کارروائی کی سفارش کی۔ اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا میجر مبشر نے کسی دلیر اور دیانتدار پولیس افسر سے انکوائری کروانے کے لئے بھی زور دیا۔ مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
مجھے کیپٹن خاور جمیل نے کہا کہ اگر ہمارے کیس کے لئے ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کو انکوائری افسر مقرر کر دیا جائے تو ہمیں اطمینان مل جائے گا۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قابل قبول ہو گا۔ جس طرح لوگ اپنے ساتھ زیادتی ہونے پر چیف جسٹس کی طرف دیکھتے ہیں۔ اب پولیس میں ذوالفقار چیمہ بھی روشنی کی ایک کرن کی طرح نظر آنے لگے ہیں۔ ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز پنجاب پولیس میڈم نبیلہ غضنفر نے بتایا کہ آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن نے چیمہ صاحب کی خدمات پر انہیں ایوارڈ اور اعتراف خدمت سے نوازا۔ میڈم نبیلہ کو بھی پنجاب پولیس کا امیج بہتر کرنے اور میڈیا کے ساتھ پولیس کے خوشگوار روابط کے لئے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ یہ غالباً پنجاب پولیس کی طرف سے پہلا ایوارڈ ہے کاش یہ ایوارڈ آخری ہو یعنی پنجاب پولیس کا امیج بہتر ہو جائے تھانہ کلچر بدل جائے۔ تھانہ مظلوموں کے لئے عاقبت کدہ بن جائے۔ حاجی صاحب یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پنجاب پولیس کا چہرہ خوفناک نہ رہے ان کی توندیں گردنیں درست ہو جائیں۔ یہ بات بھی ان کے مہربان منصف اور مدیر ہونے کے لئے کافی ہے۔ فوری طور پر یہی کافی ہے کہ ذوالفقار چیمہ کو اس کیس کے لئے انکوائری افسر مقرر کر دیا جائے۔ سب پولیس افسران چیمہ صاحب جیسے ہو جائیں....
وہ دن کب آئے گا کہ لوگ یہ یقین کر لیں گے۔ وہ تھانے میں پہنچیں گے تو ان کی دادرسی ہو جائے گی۔ اب تو عدالتوں سے بھی لوگوں کو دادرسی کی امید نہیں ہوتی۔ یہ رسی اور کتنی دراز ہو گی؟ ظلم کی بھی کوئی حد ہے کہ نہیں۔

ای پیپر دی نیشن