رچرڈ ہوگلینڈ کی سفارتکاری

انہیں احساس تو بہت ہے کہ پاکستان کے عوام ڈرون حملوں پر پریشان ہیں۔ انہیں یہ بھی ادراک ہے کہ ڈرون حملوں سے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت چیلنج ہورہی ہے۔ انہیں اس کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ افغان دھرتی کے بھارتی بوٹوں کی زد میں آنے سے پاکستان اپنے لئے کیا خطرات محسوس کرتا ہے اور انہیں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی غیرانسانی، غیرطبعی، غیراخلاقی اور قطعی غیرقانونی 86 سال کی سزا پر پاکستانی قوم میں پیدا ہونیوالے غم و غصہ سے بھی مکمل آگاہی ہے مگر پاکستان کے عوام کو پریشان اور ملک کی سالمیت کو چیلنج کرنیوالے ایسے تمام اقدامات کی انکے پاس اپنی تاویلیں موجود ہیں اور وہ ایسے کسی بھی ایشو پر اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دینا چاہتے۔ امریکی قونصل جنرل نائینافائیٹ کی اقامت گاہ پر قائم مقام امریکی سفیر رچرڈ ہوگلینڈ سے ہماری نشست ملکی اور قومی معاملات اور ان معاملات میں امریکی عمل دخل پر قوم کے تجسس اور تفکر کی نشست تھی مگر ہوگلینڈ اپنی مشاقانہ سفارتکاری کے بل بوتے پر ہمارے ہر تجسس پر پہلو بچا کر نکلتے رہے۔ وہ ہمارے قومی درد، تجسس اور تشویش پر ہمارے ساتھ یکجہتی کا اظہار ضرور کرتے مگر جواب دیتے وقت ان پر اپنے ملک کے مفادات حاوی ہوجاتے چنانچہ ہر ایشو پر انکے منہ سے وہی الفاظ نکلے جن کے ذریعے امریکی مفادات کی بہتر ترجمانی ہوسکتی ہو۔ اسکے برعکس ہمارے سفارتکار کھاتے اپنے ملک کا ہیں، اپنا، اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب، دوست احباب کا مستقبل اپنے ملک سے حاصل کئے گئے اختیارات و وسائل کی بدولت ہی سنوارتے ہیں، اپنی دھرتی سے وابستگی کی بنیاد پر ہی معزز بنتے اور کہلاتے ہیں مگر اپنے وطن کی بدولت یہ ساری نعمتیں، من و سلویٰ، دھن دولت، طاقت و اختیار سمیٹنے کے باوجود گن اسی ملک کے حکمرانوں کے گاتے ہیں، جہاں وہ تعینات ہوتے ہیں اور پاکستان کے ناکام ریاست والے زہریلے پروپیگنڈے میں بھی ہمارے ایسے ہی سفارتکاروں کا عمل دخل ہوتا ہے جو بدیشی کلچر، زبان اور مفادات کو اوڑھ کر اپنی ماضی کی محرومیاں دور کرنے کی کوششوں میں مگن ہوتے ہیں۔ اس خلط ملط میں انہیں اپنے مذہب کی پاسداری رہتی ہے نہ حب الوطنی کا کوئی تقاضہ انہیں کچوکے لگاتا ہے۔ حسین حقانی کے نطق بے توقیر سے ان دنوں ملکی اور قومی مفادات کی جو بھد اڑتی ہوئی نظر آرہی ہے اور جس اوچھے پن کے ساتھ وہ امریکہ کو اپنی ارضِ وطن پر چڑھ دوڑنے کی دعوتِ عام دئیے جا رہے ہیں، ہوگلینڈ یا کوئی دوسرا امریکی سفارتکار تو کجا، کوئی عام امریکی شہری بھی ایسی جرا¿ت اور گستاخی کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ ہوگلینڈ سے جب حسین حقانی کے اس شیطانیبیان پر ہم نے انکی رائے لینے کی کوشش کی کہ آیا اب پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات طلاق لینے کی نوبت تک جاپہنچے ہیں، ہوگلینڈ زیرلب مسکرائے، پھر حسین حقانی کے بیان کو دلچسپ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس پر میری رائے کا پوچھ رہے ہیں تو میں طلاق دلوانے والا وکیل ہرگز نہیں ہوں۔ حسین حقانی کے بس میں ہوتا تو محض طلاق پر ہی اکتفا نہ کرتے، امریکہ کے ہاتھوں اپنے وطنِ عزیز کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اہتمام کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ ہوگلینڈ تو اس اطلاع پر بھی اپنے ملکی مفادات کے حوالے سے پریشان ہوگئے تھے کہ اگر امریکی ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو پاکستان نیٹو سپلائی دوبارہ بند کردیگا۔ ہر ایشو پر انہوں نے اپنے ملکی مفادات کو مقدم رکھا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک امریکی فوجی سے بندوق چھین کر اس پر قاتلانہ حملے کی محض کوشش کرنے کے الزام میں امریکی عدالت سے ملنے والی 86 برس قید کی ظالمانہ سزا پر پوری دنیا انگشت بدنداں ہے۔ ایک کمزور نہتی عورت کو اسکی طبعی عمر سے بھی زیادہ عرصہ کیلئے سلاخوں کے پیچھے ڈالنا شرفِ انسانیت کا بھی جنازہ نکالنے کے مترادف ہے اور بالخصوص خواتین کے حقوق کے دفاع کے چیمپئن نام نہاد مہذب امریکی معاشرے کے اجلے دامن پر بھی سیاہ دھبے کے مترادف ہے جبکہ اس امریکی دہرے روئیے پر سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک بھی سراپا احتجاج بنے دنیا بھر میں آواز اٹھا رہے ہیں اور ڈاکٹر عافیہ کی سزا کو امریکہ کیلئے شرمناک ترین قرار دے رہے ہیں۔ ہم نے اسی پس منظر میں رچرڈ ہوگلینڈ سے ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے استفسار کیا تو بغیر کسی توقف کے انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملہ پر اٹھنے والی آوازوں کو محض ایک غلط پروپیگنڈہ قرار دیدیا۔ انکے بقول ”ڈاکٹر عافیہ کا ایشو پاکستان کے عوام کیلئے ایک جذباتی ایشو ضرور ہے مگر ڈاکٹر عافیہ نہ کمزور عورت ہے اور نہ ہی بے گناہ ہے، کیونکہ امریکی عدالت نے اسے اسکے جرم کی دستیاب شہادتوں کی بنیاد پر ہی سزا دی ہے جبکہ ہم نے تو ویانا کنونشن کے تقاضوں کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو اسکے ملک کے سفارتکاروں تک رسائی کا موقع بھی دیا اور اسے اپنے دفاع کیلئے وکلاءبھی فراہم کئے۔ انکے بقول دورانِ قید ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ بدسلوکی محض ایک پروپیگنڈہ ہے جس کا مقصد پاکستانی عوام کے جذبات کو مشتعل کرنا ہے“۔ رمزے کلارک کی چیخ و پکار کی موجودگی میں ڈاکٹر عافیہ کی سزا کے بارے میں ہوگلینڈ کا یہ تبصرہ اس بات کی چغلی کھا رہا تھا کہ وہ کسی بھی ایشو پر اپنے ملک کے مفادات پر کوئی زد نہیں پڑنے دینا چاہتے جو انکی کامیاب سفارتکاری کی دلیل ہے۔ انکے پیشرو کیمرون منٹر تو یہاں عملاً امریکی وائسرائے کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کی حکمت عملی پر انکے واشنگٹن سے اختلافات پیدا ہوئے تو انہیں واپس بلوالیا گیا اور انہوں نے بھی بلاتردد اپنی واپسی کے فیصلہ کو قبول کیا۔ اب واشنگٹن کی جانب سے ہمارے لئے نئے ”وائسرائے“ کے تقرر تک رچرڈ ہوگلینڈ ہمارے مالک و مختار ہیں اور جس مشاقی کے ساتھ وہ اپنے ملک کے مفادات کی ترجمانی کررہے ہیں وہ سفیر کے منصب پر مستقل تقرر پاگئے تو کیمرون منٹر کی حکمت و دانش کو بھی پیچھے چھوڑ جائینگے۔ امریکی قونصل جنرل نائینافائیٹ کی اردو زبان میں روانی اور اہلِ زبان والے لہجے میں انکا ”السلام و علیکم، خوش آمدید اور پھر ملیں گے انشاءاللہ“ کہنے کا انداز۔ یہ لوگ کسی کے گھر میں جاکر اسے اپنے نام منتقل کرانے کی ایسے ہی تو قدرت نہیں رکھتے۔

ای پیپر دی نیشن