یوں لگتا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا ہُنر بھول کر پھر سے انہی راہوں پر چل نکلے ہیں جو نامُرادی کی منزلوں کو جاتی ہیں۔ نہ جانے سیاستدان وہی غلطیاں کیوں دُہرا رہے ہیں ماضی میں جن کے بھیانک نتائج برآمد ہو چکے ہیں۔ آنیوالی نسلوں کو جمہوریت کی گھنی چھائوں کا تحفہ دینے کی بجائے ہم کانٹوں کی فصل بو رہے ہیں، نفرت کی ایسی فصل ہم 16 دسمبر 1971ء کو کاٹ چکے ہیں۔ مجیب الرحمان کے 6 نکات نے ملک کو دولخت کیا، تب بھی ایک طرف دھاندلی کا شور تھا تو دوسری طرف انا، ضد اور ہٹ دھرمی تھی۔ سیاستدانوں نے تب بھی قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنیوالے اقدامات کئے تھے آج پھر وہ مسائل کو گفت و شنید اور مفاہمت سے حل کرنے کا جذبہ بھول گئے ہیں۔ اگر ضد، انا اور ہٹ دھرمی کا عالم یہی رہا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب عمران خان اور میاں نواز شریف میثاق جمہوریت کا معاہدہ کر کے بحالی جمہوریت کی تحریک چلا ر ہے ہوں گے۔ علامہ طاہر القادری اور عمران خان اپنے انقلاب اور آزادی مارچ کی کامیابی میں مگن ہیں جبکہ 18 کروڑ عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے اور جڑواں شہروں کے باسی آس و امید کی سولی پر لٹک رہے ہیں، تاجروں کے کاروبار تباہ اور بچوں کی پڑھائی کو بریک لگ چکی ہے، دیہاڑی دار مزدروں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آ چکی ہے، بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا نام سُن کر ایسے بھاگ رہے ہیں جیسے کوّا غلیل دیکھ کر بھاگتا ہے۔ حقیقی جمہوریت کا موجد بننے کی دوڑ میں ہم بہت کچھ کھوتے جا رہے ہیں۔ سکندر نامی شخص نے ایک کلاشنکوف کے زور پر پورے اسلام آبادکو یرغمال بنا لیا تھا اب ہزاروں افراد کے ساتھ نادیدہ قوتوں کے سہارے دو سکندر اور آ چکے ہیں جو ہر روز ریڈ زون میں گھسنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اسلام آباد کی فضا میں اس قدر بدبُو پھیل چکی ہے کہ سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔
کل تک قومی اسمبلی کے فورم پر سابق آمر پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 لگانے کی حمایت کرنیوالے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو میں بڑا عقلمند تصور کرتا تھا لیکن گزشتہ روز وہ بھی مکافاتِ عمل کے نامراد موسموں کی نذر ہونیوالے سابق آمر کے در پر سر جھکاتے نظر آئے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ان کا مقصد آزادی انقلاب سے زیادہ آمر کو آزادی دلوانا ہے ملتان کا سیّد زادہ کمانڈو کے دستے کا اس وقت سالار نہ بنا جب ملک بھر میں کمانڈو کا طوطی بولتا تھا اسکے دربار میں بڑے بڑے پارسا سیاستدان سر خمیدہ دست بستہ کھڑے ہوتے تھے، بڑے بڑے سیاسی سورما جھومر ڈال کر سرِبازار می رقصم کا سماں پیدا کر کے آمر کے دل میں ذرا سی جگہ بنانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، قصیدہ گوئی کے فن میں ایک دوسرے کو مات دینے کیلئے نت نئے القابات تراشتے تھے۔تب آمر کیساتھ بیٹھنے والے عمران خان کو بھی یقین تھا کہ مشرف اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ایک مسیحا ہے، علامہ طاہر القادری سامان شکم کیلئے اسی آمر کے دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ریفرنڈم کے وقت ان دونوں پر دیوانگی کی کیفیت طاری تھی اور عمران اور قادری دونوں مضحکہ خیزی کی حد تک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں تھے۔ انہیں کامل یقین تھا کہ ماضی میں بڑے بڑے سورمائوں اور آمروں کیساتھ جو کچھ ہوا اسکے ساتھ نہیں ہو گا۔ جب آمریت کا سورج سوا نیزے پر تھا تب سبھی جمہوریت پسند اس کی تپش کی حدت سے بھاگ رہے تھے۔ ملتان کا سیّد زادہ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر کی حیثیت سے تب بھی ان نورتنوں کیخلاف اعلان جہاد کر رہا تھا جو آمریت کی گود میں بیٹھ کر جمہوریت کو صلواتیں سنا رہے تھے لیکن زمانہ بدلا، موسم تبدیل ہوا، جمہوریت نے پنپنا شروع کیا تو سیّد زادے کی ترجیحات بھی بدل گئیں اور وہ اسی آمر کیساتھ آزادی اور انقلاب کے مشورے کرنے کراچی پہنچ گیا ماضی میں جس نے ان کی آزادی کو سلب کیا تھا۔ کاش شاہ محمود قریشی مکافاتِ عمل کا شکار ہونیوالے کمانڈو کے آستانے پر حاضری دینے سے قبل اپنے ضمیر کو جھنجھوڑتے، ضمیر تو ان کا اب بھی زندہ ہو گا لیکن وہ انقلاب کے بعد وزیراعظم شپ حاصل کرنے کے چکر میں مگن ہیں۔ عمران کی تحریک کو وہ ایسے ہی ہائی جیک کرینگے جیسے میاں نواز شریف نے ججز کی تحریک کو ہائی جیک کیا تھا۔ سیّد زادے کو جب فرصت ملے تو چند منٹ نکال کر اپنے ضمیر کی آواز پر ضرور توجہ دے۔ رہی بات عمران خان اور طاہر القادری کی تو جس طرح آرمی چیف کی طرف سے بُلاوا آنے کے بعد دھرنے میں شریک لوگوں کے جھرمٹ میں وہ جس تفاخر کیساتھ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے آرمی ہائوس کی طرف روانہ ہوئے اس نے انکی جمہوری سوچ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اسکے بعد انکے حواریوں کو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر ضمیر کی آواز پر کان دھرتے ہوئے واپس پلٹ آنا چاہئے کیونکہ خان اور قادری انہیں جس راستے پر لیکر نکل کھڑے ہوئے ہیں وہ انقلاب نہیں انتشار کا راستہ ہے، وہ راہ جمہوریت نہیں آمریت کی طرف جاتی ہے۔ جس انقلاب کی کوشش براستہ جی ایچ کیو کی جا رہی ہو‘ اسے نہ تو انقلاب کہا جا سکتا ہے نہ جمہوریت‘عرف عام میں اسے آمریت ہی کہا جائیگا جو کامیابی نہ قادری کی ہو گی نہ عمران کی بلکہ تیسری قوت کی ہوگی۔