مکرمی! ذہین طلبا و طالبات کی تعلیمی مشکلات میں روز افروز اضافہ ہوا۔ خصوصا میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے شعبہ جات کیلئے دن رات محنت سے اعلیٰ نمبروں کی بدولت ان شعبہ جات میں داخل ہوتے لیکن گزشتہ کم و بیش دس سالوں سے ان پر ’’انٹری ٹیسٹ‘‘ کے نام پر چند طبقات کو نوازنے کیلئے ایک اضافی اور ناروا بوجھ مسلط کر دیا گیا۔ خصوصا ان ذہین اور محنتی طلبا سے جو رورل ایریا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس ’’بے جاٹیسٹ‘‘ نے ان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ انٹری ٹیسٹ چونکہ چند بالادست طبقات کو نوازنے کیلئے شروع کیا گیا جواز یہ پیش کیا گیا کہ بعض طلبا و طالبات نقل کی بدولت زیادہ نمبر لیتے ہیں لہذا یہ ٹیسٹ ضروری ہے۔ جب کہ موجودہ حکومت نے انٹر کے نتائج کے بعد نہ صرف ذہین طلبا و طالبات کو انعامات سے نوازا بلکہ امتحانی عملے کو بھی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے انعامات دیئے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ طلبا و طالبات شب و روز محنت سے نہایت اعلیٰ نمبروں میں کامیابی حاصل کرتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ میڈیکل یا انجینئرنگ میں داخلہ کیلئے میرٹ بناتے وقت میٹرک کے 10 فیصد، ایف ایس کے 40 فیصد اور 50 فیصد مارکس انٹری ٹیسٹ کے شمار کئے جاتے ہیں۔ کہاں چار سالہ عمدہ تعلیمی کارکردگی اور کہاں محض اڑھائی گھنٹہ کا ٹیسٹ پھر کیوں نہ یہ کام کیا جائے کہ میٹرک کے بعد ہی صرف ’’انٹری ٹیسٹ‘‘ لے لیا جائے۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی آڑ میں بعض اکیڈمیوں نے عوام کو معاشی طور پر لوٹنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ اپنی جگہ بہت بڑا المیہ ہے۔ لاہور یا بڑے شہروں میں مقیم طلباء و طالبات کے قدرے کم مگر قرب و جواز کے شہروں سے آنیوالے طلباء و طالبات کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے انٹری ٹیسٹ ، M.cat کیلئے کورس کے علاوہ کم و بیش 800آٹھ سو انگریزی کے ایسے سوالات ہیں جن کا متعلقہ مضامین سے کوئی تعلق نہیں۔ امسال یہ بھی حقیقت ہر سال کی طرح سامنے آئی کہ لاہور کے تین بڑے کالجز کے نہایت ذہین طلباء و طالبات اس ٹیسٹ کی وجہ سے نچلی پوزیشن میں آگئے سرکاری میڈیکل کالجز کی موجودگی میں بعض نام نہاد طبقات نے جن کا میڈیکل کے شعبہ سے دور کا واسطہ بھی نہیں میڈیکل حتی کے انجینئرنگ کی تعلیم کیلئے کمرش ادارے بنا لئے ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ میڈیکل کیلئے 8 لاکھ سے لے کر 10 لاکھ تک سالانہ فیس لینے کا رواج چل پڑا ہے کچھ بیرون ممالک سے آئے ہوئے ڈاکٹرز نے ہمارے اس طریق کار کو مضحکہ خیز قرار دیا اور انٹری ٹیسٹ کے بارے میں سن کر حیران رہ گئے اور ہمارے نظام تعلیم کا مذاق اڑایا کیونکہ کسی بھی ملک میں ’’انٹری ٹیسٹ‘‘ کا طریق کار اپنایا نہیں جاتا۔ اس سلسلہ میں اعلیٰ عدالتوں سے التماس ہے کہ وہ طلباء و طالبات اور والدین ایک مسلسل عذاب سے نجات دلائیں۔(پروفیسر محمد مظہر عالم)