لاہور (خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار+ خبرنگار+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی ف اور دیگر جماعتوں نے وزیراعظم ہائوس کے باہر پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس میں تصادم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا۔ ان جماعتوں نے تاہم موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ان دونوں جماعتوں کو قرار دیا ہے۔ ان رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسائل کا حل مذاکرات میں ہی پوشیدہ ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے سلام آباد کی صورتحال کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے کارکنوں کو آگ میں جھونک کر اچھا نہیں کیا۔ نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں رہنمائوں کو چاہئے کہ اپنے رویہ پر نظرثانی کریں تاکہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا عمران خان اور طاہر القادری کی منفی سیاست کے نتیجے میں اگر ملک کسی حادثے سے دوچار ہو گیا تو اس سے نہ صرف قوم اور ملک کا نقصان ہو گا بلکہ عمران اور طاہر القادری کی سیاست بھی ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گی۔ پی ایم ہائوس کی حفاظت فوج سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے۔وزیراعظم ہائوس کی جانب پیش قدمی کی گئی۔پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو ڈٹ جانا چاہئے۔ استعفیٰ نہیں دینا چاہئے۔ کنپٹی پر بندوق رکھ کر کوئی استعفیٰ نہیں لے سکتا۔ عمران اور طاہر القادری نے خواتین اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ اور بھٹو کی برسی کے بعد یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اے این پی کے سنیٹر زاہد خان نے کہا کہ عمارتوں پر حملہ دہشت گردی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب نے اس صورتحال کو انتہائی افسوسناک قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے کہا یہ واقعہ سیاسی قیادت کی مکمل نااہلی ہے۔ پارلیمنٹ، پریذیڈنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کرنے کی کوشش اچھی بات نہیں لیکن زخمی بچوں اور خواتین کے ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر بھی افسوسناک ہیں۔ پی پی پی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات شوکت بسرا نے کہا پرُامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، تشدد کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔ حکومت کو سیاسی انداز میں فہم و فراست سے حل کرنا چاہئے، مزید انسانی جانوں کا خون نہیں بہنا چاہئے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ حالات اس نہج پر نہ پہنچیں، اب بھی میرا یقین ہے کہ تشدد نہیں، بہرحال مسائل کا حل مذاکرات ہی میں ہے۔ حکومت فوری طور پر بچوں، خواتین اور بزرگوں متاثرہ علاقے سے محفوظ علاقے میں منتقل کرے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے صدر پیر اعجاز احمد ہاشمی نے کہا کہ دھرنا دینے والوں نے حکومت نہیں اٹھارہ کروڑ عوام کے صبر کا بھی امتحان لیا، یہ غیرملکی ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں، سازشی لوگ محب وطن نہیں ہو سکتے، انہیں گرفتار کرکے ملک کو انتشار کا شکار کرنے، دہشت پھیلانے، وفاقی دارالحکومت پر لشکرکشی کرنے پر مقدمات درج کرکے گرفتار کیا جائے، کینیڈا والے کو کینیڈا واپس بھیجا جائے۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ حکومت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومتی صبر کو ان کی کمزوری سمجھ لیا یہ لوگ کچھ اور چاہتے ہیں کہ حالات ایسے ہوں کہ کوئی اور تیسرا فریق اقتدار پر شب خون مارے۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت نے 18 سے 20 روز تک صبر کا مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ریڈ لائن عبور کر لی۔ دونوں جماعتوں کی ہٹ دھرمی کے سبب ایسا ہوا۔ دونوں جماعتوں نے عورتوں‘ بچوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اہم عمارتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اگر ایک بار ایشوز سے ہٹ کر پسپائی اختیار کی جاتی تو مظاہرین ایک کے بعد دوسرا مطالبہ کرتے۔ حکومت نے طاہر القادری کے مطالبات منظور کرتے ہوئے ان کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر درج کرائی۔ ہرلحاظ سے مظاہرین بے نقاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ یہ لوگ ملکی نظام کوتباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے کوئی سیاسی مطالبات نہیں۔ عزائم کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ مطالبات کچھ تھے انداز کچھ ہیں یہ بات واضح کر رہی ہے کہ جمہوریت ان کی منزل نہیں عورتوں بچوں کو ڈھال بنانا کہاں کا انصاف ہے ادارے سرکاری عمارتوں کے محافظ ہیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل ، وفاقی وزیر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ جب قانون ہاتھ میں لیا جائے گا تو انتظامیہ حرکت میں آئے گی۔ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بچوں خواتین اور بوڑھوں کے حال پر رحم کریں اور ان کی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں واپس جانے والوں کو محفوظ راستہ دیں۔ استقلال پارٹی‘ مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ ضیا الحق نے اس چڑھائی کو فاشزم قرار دیتے ہوئے دونوں جماعتوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سینئر نائب صدر محمد علی درانی نے کہا کہ دونوں جماعتوں نے جمہوریت کشی کی انتہا کر دی اگر مارشل لا لگا تو اس کے ذمہ دار دونوں ہوں گے۔ استقلال پارٹی کے چیئرمین سید منظور علی گیلانی نے کہا کہ دونوں جماعتوں پر پابندی لگانی چاہئے اور آرٹیکل چھ کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ مسلم لیگ ضیا الحق کے سربراہ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ یہ جمہوریت کیلئے سیاہ ترین دن ہے ان دونوں جماعتوں کی طرف سے جمہوریت کو قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ 15/ 20 ہزار لوگوں کو یہ حق ہے کہ وہ تمام صورتحال جام کر دیں۔ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم پر چڑھ دوڑیں۔ جو کونسلر نہیں بن سکتا وہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہا ہے۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عمران خان انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔ برطانوی ہائی کمشنر سے پوچھیں کہ اس طرح مظاہرین 10 ڈاؤننگ سٹریٹ آ سکتے ہیں، جن لوگوں کو یہ دعوت دے رہے ہیں وہ ملک کا ستیاناس کر دینگے۔ یہ عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر کون سے مقاصد حاصل کرنا تھے۔ عمران کی عزت کھیل کی وجہ سے تھی اب وہ لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ مشرف دور میں ججز بحال کی تحریک کے دوران عمران کو گھر پر نظربند کیا گیا تو وہ دیوار پھلانگ کر بھاگ گئے۔ سارے ملک کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ یہ غنڈہ گردی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما امین فہیم نے کہا ہے کہ خدا کیلئے خون کی ہولی بند کی جائے۔ قائم مقام وزیراعظم کی گنجائش موجود ہے۔ رحمان ملک نے کہا ہے کہ مظاہرین کو پرامن احتجاج کا موقع دیا جانا چاہئے تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خاں نے مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ پر حملے کرنے والوں پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے‘ پہلے جمہوریت کے ساتھ تھے اب نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔پیپلز پارٹی میڈیا سیل کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے مظاہرین پر پولیس تشدد کی مذمت کی ہے۔