ہم اپنے آبائی گاﺅں اموں پور میں بڑے خوشحال طریقے سے زندگی گزار رہے تھے۔ ہندوﺅں پر ہمیں برتری حاصل تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ الیکشن جیت چکی تھی پاکستان بننے کا اعلان ہو چکا تھا۔ ہندو متعصب لوگوں نے سازشیں شروع کر دیں۔ نندرام بابو ایک ہندو غنڈا تھا اس نے مختلف گاﺅں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی اور ہر روز ایک ایک گاﺅں کو توڑنے کا پروگرام بنا لیا۔ ہمارے قریبی گاﺅں ماجرا میں جھیلو اور بگو نامی دو ہندو روڑ خاندان کے تھے وہ نندرام بابو کے خاندان سے تھے۔ نند رام نے جب ہمارے گاﺅں پر حملہ آور ہونے کا پیغام بھیجا تو جھیلو اور بگو نے نندرام کو کہلوا بھیجا کہ اموں پور گاﺅں والے مسلمانوں کےساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں اسلئے اموں پور پر حملہ نہ کرنا ورنہ ہم ان کا ساتھ دیں گے۔ نندرام نے ہمارے گاﺅں پر حملہ روک دیا اور ایک اور چھوٹے گاﺅں بچکی پر حملہ کا پیغام بھیجا۔ بچکی والوں نے اپنے بال بچے ساتھ والے گاﺅں میں بھیج دیئے اور اپلوں کے بھٹوڑوں میں آگ سلگا دی اور سب لوگ ہتھیار لے کر گاﺅں سے باہر کھلے میدان میں تیار بیٹھے تھے۔ جب بابو نندرام دھاڑ لے کر حملہ آور ہوا تو بچکی کے مسلمانوں نے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور تمام حملہ آور غنڈے ایک ایک دو دو کرکے مارے گئے۔ نندرام بابو نے بھاگنے کی کوشش کی تو دو نوجوانوں نے اس کا پیچھا کرکے اس کو بھی جا لیا اور لاٹھیوں سے سر پھوڑ دیا۔ اس حملہ کی خبر سن کر ہم اموں پور سے چالیس پنتالیس آدمی لاٹھیاں اور بھالے لے کر راجباہ اموں پور کے ساتھ بڑی نہر تک گئے تاکہ بچکی والے مسلمانوں کا ساتھ دیں ہم اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے بڑی نہر تک پہنچ گئے تو وہاں لوگوں نے بتایا کہ بچکی گاﺅں کے لوگوں نے تمام حملہ آوروں کو ٹھکانے لگا کر بھٹوڑوں کی آگ میں ڈال رہے ہیں اور لڑائی ختم ہو گئی ہے۔ ہم نے دو آدمیوں کو وہاں بچکی کے حالات دیکھنے کیلئے بھیجا۔ انہوں نے بتایا کہ تمام ہندوﺅں کو بھٹوڑوں کی جلتی آگ میں ڈال دیا گیا ہے۔ لاشیں جل رہی تھیں اور بچکی گاﺅں کے لوگ دسین گاﺅں میں دعوت کھا رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد تمام گاﺅں کے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور اس کے بعد تحصیل کیتھل کے کسی گاﺅں پر حملہ نہ ہوا۔ نیسنگ شہر کیتھل روڈ پر واقع تھا۔ ہمارے گاﺅں کا قافلہ نیسنگ کے کیمپ میں دس بارہ دن پڑا رہا۔ پھر وہاں سے کرنال کے کیمپ میں منتقل ہوئے۔ چند دن بعد کرنال کے کیمپ پر حملہ کی خبر سنی۔ اس دوران کوئٹہ، بلوچستان سے پاکستانی فوجی وہاں کرنال کے کیمپ میں پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے کیمپ کو گھیرے میں لے لیا۔ ہمارا قافلہ وہاں تقریباً 15 دن پڑا رہا۔ پندرہ دن کے بعد ریل گاڑی میں جگہ ملی۔ ایک ٹرین میں چھ سات ہزار لوگ سوار تھے۔ عورتیں، بچے اور بوڑھے اندر اور تمام نوجوان لوگ چھتوں پر بیٹھے یا کھڑے ہوئے تھے۔ ریل آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ کرنال سے لاہور تک ٹرین راستہ میں جگہ جگہ رکتی گئی ہر پل خبریں آ رہی تھیں کہ ریل پر حملہ ہونے والا ہے تمام لوگ سناٹے میں خاموش اللہ کو یاد کر رہے تھے جب خبر آئی کہ راستہ صاف ہو گیا تو ٹرین چل پڑتی تھی۔ اس طرح پانچ دن کی مسافت کے بعد جب ٹرین لاہور کے ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو لوگوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔