لاہور (سید شعیب الدین سے) کراچی آپریشن میں تیزی آنے کے بعد رینجرز کی گرفت پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں پر سخت سے سخت تر ہوتی جارہی ہے اور پارٹی ذرائع یہ سمجھ چکے ہیں پارٹی کی سینئر قیادت پر جلد ہاتھ ڈالا جانے والا ہے جن رہنماﺅں کو جلد حراست میں لئے جانے کا امکان ہے ان میں شرجیل میمن سرفہرست ہیں۔ جبکہ آصف زرداری کے رضاعی بھائی مظفر ٹپی کو بیرون ملک سے واپس لانے کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔ اس کے ساتھ آصف زرداری کے دونوں بہنوئیوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ درحقیقت ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری نے پی پی پی کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے کیونکہ رینجرز کی حراست میں وہ زبان کھول چکے ہیں اور سندھ کی بڑی مچھلیوں کے نہ صرف نام بتا چکے ہیں بلکہ ریکارڈ کی نشاندہی بھی کی ہے جس کی بنیاد پر رینجرز نے مختلف محکموں میں چھاپے مار کر ریکارڈ اپنے قبضے میں کرلیا ہے۔ شریک چیئرمین آصف زرداری فی الحال پاکستان آنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ جبکہ چیئرمین بلاول بھٹو عازم لاہور ہوا چاہتے ہیں۔ لاہور میں قیام کے دوران وہ پارٹی کے اندرونی خلفشار سے نبٹنے کی کوشش کریں گے۔ یہ تاثر کہ وہ پارٹی کے اندرونی خلفشار پر کوئی حتمی فیصلہ کرسکیں گے اس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔ پارٹی میں منظور وٹو کو ہٹانے کا مطالبہ سرفہرست ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے رہنما اور کارکن پارٹی چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا ہے۔ پیپلز پارٹی جو اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران سے دوچار ہے، بظاہر اس سے بحفاظت باہر نکلتی نظر نہیں آتی۔ اندریں حالات سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں اور تیاریوں کے اعتبار سے ابھی تک زیرو پوائنٹ پر کھڑی ہے۔ یہ احساس پارٹی جیالوں کو بخوبی ہوچکا ہے کہ وقت ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور جلد اہم فیصلے نہ کئے گئے تو پارٹی 1997ءکے حالات میں چلی جائے گی۔
رینجرز/ گرفت