کشمیر میں بھارتی ظلم وستم اور مجاہدین کی پاکستان سے توقعات

کشمیری مائیں، بہنیں، بچے، مرد جو اپنی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں وہ مسلح نہیں ہیں، وہ خالی ہاتھ ہیں جبکہ انکا مقابلہ مسلح بھارتی افواج سے ہو رہا ہے، جو اسلحہ سے لیس ہی نہیں بلکہ انکی سرپرستی کرنے والی بھارتی حکومت بلا کی عیار بھی ہے ، اور دنیا بھر میں انکی سفارت کاری بھی زیادہ مضبوط ہے چونکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ہمدرد زیادہ نہیں ہیں ،انکے مقابلے میں کشمیریوں کا اپنا جذبہ آزادی ہے ، یا صرف پاکستان کی ایک کمزور سی سفارتی مدد جو کبھی تیز کبھی نرم ہوجاتی ہے ، کشمیری مجاہدین اس مدد کو ہی اپنے لئے بہت کچھ سمجھتے ہیں ، بھارت مسلمان دشمن قوتوں کی مدد سے علاقے کا بڑا ــ’’ دادا یا غنڈہ ‘‘ بننے کی کوشش کرتا ہے، اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت کہلانا پسند فرماتا ہے قدم قدم پر انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے یہ پامالی کشمیر میں ہی نہیں خود بھارتی ریاستوں میں بھی اس کا یہی عمل ہے، اپنے گھر میں ہونے والے ہر اقدام کو وہ پاکستان کے سر تھوپنا چاہتا ہے، دنیا کے علم ہے کہ وزیر اعظم مودی خود دہشت گردوںکی فہرست میں رہا ہے مگر واہ رے ،، جمہوری ملکوں !
اپنے مفادات کیلئے وہ دہشت گرد سے دوستوں کی فہرست میں آگیا ، پاکستان کی سیاسی جماعتیں یا حکومتیں کشمیری بھائیوںکی وہ مدد نہیں کررہی ہیں جسکی کشمیری مجاہدین خواہش رکھتے ہیں، دنیا بھر سے سفارتی مدد حاصل کرنے کی ذمہ داری انہوںنے پاکستان پر چھوڑی ہوئی ہے ، پاکستان رضاکارانہ یہ کام کررہا ہے مگر ہمارے ’’سفارتی بابو ‘‘ یہ کام اس ایمانداری سے نہیں کررہے جس ایمانداری سے کشمیری مجاہدین بھارتی ظلم و ستم سے شہید ہونے والی کی لاشوں پر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹے ہیں یا ظلم سہنے کے باوجود بھی وہ اپنے گھروں میٰں سر ہلالی پرچم لہراتے ہیں، یا اپنے جلسے و جلوسوں میں پاکستان کے پرچم کو عزت بخشتی ہیں، کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے ہیں۔
کشمیری مجاہدین قائداعظم کے اس قول کو سچا کرنے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں کہ ’’الحاق کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے ‘‘ پاکستان کا ایک ایک فرد کشمیریوں کے خون کا مقروض ہے ، جو ہماری روش ہے وہ کشمیری مجاہدین کیلئے حوصلہ افزاء نہیں بلکہ حوصلہ شکن ہے ، ہمارے سفارتی مشنوں کی ڈیوٹی میں شامل ہے کہ وہ جس ملک میں بھی ہیں وہاں انہیں یہ بتائیں کہ بھارت جو بڑا جمہوری ملک کہلاتا ہے کس طرح کشمیریوں کیلئے حق رائے دہی کا وعدہ کرکے مکر گیا، وہ قراردادیں جن کی منظوری میں اسکے لیڈران کی رائے شامل تھی آج وہ ان سے منحرف ہوگیا ہے ، جب کشمیری بھارت کو وہ قرارداد یاد دلاتے ہیں تو وہ اپنی بندوقوں کے رخ ان کی طرف موڑ کر نہتے لوگوں پر انسانیت سوز ظلم کرتا ہے، بہ حیثیت پاکستانی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کو اس بات کا پابند کریںکہ کشمیری جو ہم سے یہ نہیں چاہتے کہ ہم انکے لئے لڑائی کریں وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم سفارتی سطح پر دنیا میں انکے لئے رائے عامہ ہموار کریں اور دنیا کو اس بات پر مجبور کریںکہ وہ بھارت پر مختلف بین الاقوامی فورمز پر دبائو ڈالے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے ، اقوام عالم کے سامنے جس بھارت نے اپنے سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا ڈھونگ رچایا ہے اسکا چہرہ بے نقاب کریں ، یہ اتنی سی معصوم خواہشات ہیں نہتے مظلوم کشمیریوں کی جسے ہم پوری نہیں کررہے ۔ ہماری ذمہ داریوں کا احساس دلانے کیلئے بے شمار کشمیریوں کو شہید ہونا پڑتا ہے پھر ہم کچھ ہل جل کرتے ہیں، گزشتہ کئی ماہ سے کشمیر میں بھارت قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہوئے ریاستی دہشت گردی کررہا ہے ۔ اب ہم جاگے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے نوکر شاہی کے رحم و کرم پر رہتے ہوئے اسمبلی سے اپنے لوگوں کی کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ صرف اپنے ہمدردروں کے بجائے اس میں دیگر پارٹیوں کے لوگوں کو جو پارلمینٹ میں انہیں بھی شامل کیا جاتا کہ دنیا میں ہمارے جمہوری ملک ہونے کا پیغام جاتا، پھر سعود ی عرب جیسے برادر ملک جو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی پالیسی پر ہر مہر لگانے کو تیار ہے ، او آئی سی کے ذریعے بھی اور حکومتی حیثیت میں بھی وہاں کسی خرچ کی ضرورت نہیں تھی ، ایک اور غلطی کہ سعودی عرب میں بھیجنے کیلئے مولانہ فضل الرحمان کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں جو ہمارے بچپن سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں اور آج تک کوئی کارہائے نمایا ں انجام نہیں دیا ، وہ مختلف پاک سعودی معاملات میں کوئی بہتر ریکارڈ نہیں رکھتے ۔
سوال یہ ہے کہ جن ممالک میں کمیٹیاںجارہی ہیں وہاں ہمارے سفارت خانے کس مرض کی دوا ہیں ، انکے کاموںمیں اہم نکتہ ہے حکومتی پالیسوںکو غیر ممالک تک پہنچانا ، اسلئے کمیٹیاں بھیجنے کا فیصلہ کو ئی مقبول فیصلہ نہیں ہے ، بجائے اسکے اگر پاکستان درخواست کرتا او آئی سی ، اقوام متحدہ کشمیر میںہونے والے ظلم و ستم پر خصوصی اجلاس منعقد کرنے کی ، وزاراء خارجہ کا اجلاس کرنے کی تو یہ سفارتی محاذ پر کشمیریوں کی صحیح مدد تھی۔ اللہ سے دعا ہے کہ کمیٹیاں چاہے اپنی ہی صحیح مگر کچھ ملکوں سے جو کشمیر پر بات نہیں کرتے کشمیروںکے حق میں اور بھارتی ظلم و ستم کے خلاف بیان ہی دلا دیں تو کم از کم ان کمیٹیوں کا ہی فائدہ ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن