محفل کے شرکاء پر کوئی خاص رنگ غالب نہیں تھا۔ ان کی تعداد چالیس تھی۔ ماڈل ٹائون پارک کی کنٹین کے سامنے منی جم کے ساتھ یہ لوگ دو رویہ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ سامنے میز پر تین حضرات تشریف فرما تھے۔ درمیان والے کے پاس مائیک تھا۔ میں عموماً اتوار کو اس پارک میں صبح واک کے لئے جاتا ہوں۔میں اجنبی بھی اہل علم کی مجلس میںکرسی کھینچ کر شامل ہوگیا۔ صاحب سخن روس کے دورے کی روداد سنا رہے تھے۔’’آج پہلے کی طرح مذہبی پابندیاں نہیں ہیں۔مسلمان بھی وہاں خود کو ایڈجسٹ کررہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ ایک مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے تھے کہ پندرہ بیس خواتین مسجد میں داخل ہوئیں۔ ان کے جسم کے ان حصوں پر ہی کپڑے تھے جن کا ڈھانپنا ناگزیر تھا۔ انہوں نے اسی حالت میں وضو کیا اور مسجد میں رکھی عبائیں پہنیں، سر سکارف سے ڈھانپا اور نماز پڑھنے میں مصروف ہو گئیں۔ یہ مسجد سے قریب کسی ادارے میں ملازم تھیں۔ روس میں مسلمان خود کو اس طرح ایڈجسٹ کر رہے ہیں۔ کسی دور میں مسلمانوں کا ناطقہ بند تھا تو مسلمان خود کو اس دور کی مناسبت سے ایڈجسٹ کرتے تھے۔ مجھے وہاں ٹریننگ کے لئے ستر کی دہائی میں گئے ایک صاحب کی تحریر سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔
’’ماسکو میں جمعہ کے دن دوستوں سے نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے چلنے کو کہا تو جواب ملا کہ یہاں اکثر مساجد کو گودام، کچھ کو سیاحوں کی قیام گاہ بنا دیا گیا ہے۔ شہر میں صرف دو مسجدیں بچی ہیں جو کبھی کبھی کھلتی ہیں۔ ان سے پتہ لیا اور خود ایک مسجد چلا گیا۔ مسجد بند تھی، پڑوس میں ہی ایک بندے کے پاس چابی تھی۔ اس آدمی سے نماز کیلئے دروازہ کھولنے کو کہا۔ اس نے کہا کہ دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ میں نے کہا ’’روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا، چاہے کچھ بھی ہوجائے‘‘۔ اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر کا ماحول بہت خراب تھا۔ میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور پھر بلند آواز سے اذان دی۔ اذان کی آواز سن کر بوڑھے، بچے، مرد، عورتیں اور جوان سب مسجد کے دروازے پہ یہ دیکھنے کیلئے جمع ہوگئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ہے لیکن مسجد کے اندر کوئی بھی نہیں آیا۔ خیر میں نے نماز جمعہ تو ادا نہیں کی کیونکہ اکیلا تھا، بس ظہر کی نماز ادا کی۔ واپسی پر لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں نماز ادا کر باہر نہیں نکلا بلکہ کوئی نیا کام متعارف کروا کر باہر آیا ہوں۔ان میں سے ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چائے پینے آئیے۔ اس کے لہجے میں خلوص ایسا تھا کہ انکار نہ کرسکا، گھر پہنچے تو وہاں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ کھانا کھایا، چائے پی اور ساتھ بیٹھے ایک بچے سے پوچھا آپ کو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے؟ بچے نے جواب دیا، جی بالکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے۔ میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سنائو مجھے۔ بچے نے قرآن کو دیکھا، پھر مجھے دیکھا، پھر قرآن کو دیکھا، ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا۔ میں نے کہا بیٹا قرآن کی یہ آیت پڑھو اور انگلی اس آیت پر رکھ کر چند الفاظ پڑھے۔۔۔ تو وہ فرفر پڑھنے لگا، قرآن کو دیکھے بنا ہی۔ مجھے حیرت ہوئی۔ میں نے اس کے والدین سے پوچھا ’’حضرات یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں، کسی کے گھر سے قرآن پاک کی آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جائے تو اس تمام خاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے، اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں‘‘
’’تو پھر اس بچے نے قرآن کیسے حفظ کیا، کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں‘‘۔ میں نے مزید حیران ہوکر پوچھا۔
’’ہمارے پاس قرآن کے کئی حافظ ہیں، کوئی درزی ہے، کوئی دکاندار، کوئی سبزی فروش اور کوئی کسان، ہم ان کے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہیں محنت مزدوری کے بہانے۔ وہ ان کوقرآن حفظ کراتے ہیں۔ کسی کے پاس قرآن کا نسخہ ہے نہیں، اس لیے ہماری نئی نسل کو ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں آتا۔ اس وقت ہماری گلیوں میں آپ کو جتنے بچے دکھائی دے رہے ہیں، یہ سب حافظ قرآن ہیں‘‘۔
جس معاشرے میں قرآن پڑھنے اور گھر میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی، اس معاشرے کے بچوں کے سینوں میں قرآن محفوظ ہو گیا۔ میں جب باہر نکلا تو کئی بچے دیکھے، ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو کئی نے قرآن سنایا۔ دفعتاً دل میں خیال آیا کہ کمیونسٹوں نے قرآن رکھنے پر پابندی لگا دی لیکن سینوں میں قرآن محفوظ کرنے پر پابندی نہ لگا سکے۔ تب مجھے اللہ پاک کے اس ارشاد کی حقانیت سمجھ آ گئی۔بے شک یہ ذکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔
ہالینڈ کے دائیں بازو کے سیاستدان گیرٹ وِلڈرز کی جماعت فریڈم پارٹی نے اپنے منشور میں اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ وہ برسرِاقتدار آنے کے بعد تمام مساجد اور مذہبی مدرسے بند کر دے گی اور قرآن پر پابندی لگا دے گی۔ ہالینڈ میں مارچ 2017 میں مجوزہ عام انتخابات سے پہلے یہ جماعت رائے عامہ کے جائزوں میں سبقت لیے ہوئے ہے۔ اُدھر جمہوریہ چیک کے وزیراعظم بوسلاف سوبوتکہ نے کہا ہے کہ ہم مسلم برادری کو اپنے معاشرے میں پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ جمہوریہ چیک‘ پولینڈ‘ ہنگری‘ اور سلواکیہ پر مشتمل ویشے گراڈ ممالک مسلم پناہ گزینوں کی آمد کے مخالف ہیں۔
اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔ بوسلاف اسلام کو دہشتگردی کا مذہب قرار دینے والوں کے پراپیگنڈے سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ جمہوریہ چیک میں موجود علمائے اسلام وزیراعظم بوسلاف کے اسلام کے بارے میں خدشات دور کرنے کی کوشش کریں۔ پولینڈ میں گیراٹ کی پارٹی حکومت میں آکر مسلمانوں کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ مسلمان ابھی سے نئے ماحول اور مشکل حالات میں ایڈجسٹ ہونے کی حکمت عملی تیار کر لیں۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے اس لئے قرآن پر پابندی لگتی ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں البتہ انتخابات میں اپنا کردار ضرور ادا کریں۔گیراٹ کی پارٹی کی کھُل کر مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں، پورا زور لگائیں کہ مسلم کمیونٹی ہر صورت میں ووٹ کاسٹ کرے۔ یہ مسلمانوں کو پتہ ہے کہ ووٹ کس کو دینا ہے۔
ترکی میں بھی مسلمانوں پر کمال اتاترک نے دین کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی مگر دین کو وہ مسلمانوں کے دل و دماغ سے نہ نکال سکے۔ ترک فوج اتاترک کے فکر و فلسفے کو بندوق کے زور پر نافذ کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر جیسے ہی ریلیف ملتا تو مسلمانوں سے مسجدیں آباد ہونے لگتیں آج ایک بار پھر مساجد سے اللہ اکبر کی صدائیں گونجتی ہیں اور خوش الحانی سے تلاوت کلام مجید کی جاتی ہے۔ واقعی اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے۔
قرآن … مسلمان‘ مشکلات اور حکمت
Aug 31, 2016