اُنہیں کیوں نکالا؟

پانامہ کے ہنگامے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کوئی کوشش ایسی باقی ہے جو ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ گروپ نے نہیں کی ہو۔ جی جی بریگیڈ کی بدزبانی سے لے کر اسلام آباد سے لاہور تک ریلی سے جگہ جگہ خُطبات کے ذریعہ ترکی کے صدر اردوان بننے کی کوششوں ، ترکی کے صدر طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کی ناکامی اور ترک عوام کی طیب اردوان کی حمایت میں بے مثال مظاہروں اور دھرنوں کی طرز پر پاکستان میں عوام کو سڑکوں پر لانے اور اندرون خانہ کی گئی تمام ترغیبات اور کوششوں کی ناکامی کے بعد جب نااہل وزیراعظم رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار نہ کرسکے تو اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے وہ تمام حدود پار کرلیں جو بغاوت کے ذیل میں آتی ہیں۔ ان ساری کوششوں، کاوشوں کا اُلٹا اثر ہوا، نہ کوئی NRO ہوا، نہ کسی نے کوئی ڈیل کی بات کی اس کے برعکس اگر کوئی بات سامنے آئی تو آرمی چیف کی طرف سے وہ ہے کہ آئین اور قانون سے ماورا کوئی بات نہیں ہوگی۔ تب میاں صاحب اور اُن شریک جُرم حضرات نے اپیلیں دائر کردیں جن کی ابھی تاریخ سماعت کا بھی فیصلہ نہیں ہوا کہ یہ اپیلیں کب سُنی جائیں گی۔ ادھر نیب میں پیش نہ ہوکر اپنے لئے مزید مُشکلات پیدا کرلیں ہیں۔ نیب سے اطلاع ہے کہ وہ 4 ریفرنس 30 اگست کو اپنے ہیڈکوارٹر میں جمع کروا دے گا۔ اس کے بعد بکس نمبر 10 پر کام شروع ہوگا۔ اب میاں صاحب اگر لندن جاتے ہیں اور وہاں پریس میں کیا گفتگو فرماتے ہیں یہ تو بعد میں پتہ چلے گا۔ اگر میاں صاحب نے واپس آنا ہے تو محتاط گفتگو کرنا ہوگی۔ یہ بات تو طے ہے کہ ریفرنسوں کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر آجائے گا اور چند نئے ریفرنس بھی داخل ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ کہنا کہ ہر چھوٹا بڑا معاملہ ہمارے پاس آ جاتا ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے کچھ نہیں کررہے؟ ملکی حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ماں باپ اپنے بچوں کوصرف اس لئے مارنے پر مجبور ہیں کہ وہ انہیں بُھوک سے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے‘ بڑے بڑے شہروں میں نفسانفسی، لُوٹ مار اس بات کا ثبوت ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری اور دوسری وہ تمام سہولتیں جو عوام کا حق ہیں اُن کی پہنچ سے بہت دور کردی گئی ہیں، دیہاتوں میں تو حالات اس سے بھی کہیں زیادہ خراب ہیں‘ وڈیرا اتنا مُنہ زور ہوگیا ہے کہ اگر کسی وڈیرے کے علاقے میں کوئی نوجوان اپنے خاندان کی روزی روٹی کیلئے اپنی ہی زمین پر فش فارم بنانے کی کوشش کرتا ہے تو وڈیرے کے بیٹے مار مار کر اسے ادھ موا کردیتے ہیں۔ اس کی فریاد سننے کے بجائے پولیس اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ وڈیرے کے جرگہ میں جائے اور جو فیصلہ وہ کرے وہ مانے۔ یہ اور ایسے بہت سارے واقعات ہیں جو آئے دن میڈیا پر دیکھے اور سُنے جارہے ہیں جبکہ ہر واقعہ رپورٹ ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ ان نازک حالات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے حکمران قوم کو یہ نوید سنا رہے ہیں کہ ملک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے مزید یہ بات بھی فخریہ بیان کی جاتی ہے کہ قوم کا ایک ایک فرد حتیٰ کہ نوزائیدہ بچہ بھی ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوچکا ہے۔ ان حکمرانوں کی عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ یہ درُست ہے کہ حُکمران طبقہ اربوں نہیں کھربوں پتی بن چکا ہے۔ دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ اپنی بستیاں عوام سے دُور بنا لی ہیں جنہیں دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ’’فردوس بریں‘‘ میں آگئے ہیں یہ وہ طبقہ ہے جو ابھی کل (1947ء تک) انگریزوں کے جُوتے صاف کیا کرتے تھے۔ اسے کفرانِ نعمت نہ کہیں تو کیا کہیں؟ پاکستان کیسے اندرونی دبائو میں ناکامی کے بعد اب بیرونی دبائو کا سامنا ہے۔ ٹرمپ، امریکی اور بھارتی جرنیلوں کی دھمکیاں اس بات کی غماض ہیں کہ انہیں سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان کے نااہل وزیراعظم پر جو سرمایہ کاری کی گئی تھی وہ ڈوب چُکی ہے۔ پاکستان میں رائے عامہ اس بات پر متفق ہے کہ کرپشن سے آزاد معاشرہ اور سب کا بلاتفریق ’’احتساب‘‘ ہونا چاہئے، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ضروری ہے! برطانیہ نے الطاف حسین اور بلوچ باغیوں کے ذریعہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے وہ کونسی کوشش ہے جو اب تک نہیں کی، سی پیک منصوبے نے بھارت اور امریکہ کی مستقبل کی منصوبہ بندی کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اس لئے وہ جارحانہ حکمت عملی پر اُتر آئے ہیں۔
امریکہ نے جب یہ دیکھا کہ بھارت جو پاکستان سے چھ گنا بڑا اور ملٹری پاور میں بھی بہت بڑا ہونے کے باوجود پاکستان کا کُچھ نہیں بگاڑ پایا تب امریکہ میدان میں آیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں کیوں بیٹھا ہے؟ کیا افغانستان اس کے مُلک کا حصہ ہے یا کوئی پڑوسی ملک ہے؟ اسے کِس نے بلایا ہے؟ وہ تو بن بُلایا مہمان ہے۔ اصل وجہ ظاہر ہے اس کا ہدف تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے جو اسلام دُشمن طاقتوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ بے پناہ قرضوں میں پاکستان کو جکڑنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پاکستان میں نیا گوربا چوف تیار کیا جارہا تھا جو اللہ کی پکڑ میں آچکا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے موٹر وے، ایئرپورٹ وغیرہ گروی رکھ دیئے ہیں۔ عام پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر قرضوں سے حاصل کردہ رقوم گئی کہاں ہیں؟ امریکہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ جب کوئی قوم متحد ہوجائے تو پھر سُپر پاور بھی ویت نام اور دیگر چھوٹی اور کمزور قوموں کے ہاتھوں ذلیل ہوجاتی ہے۔ پاکستانی قوم جو 21 کروڑ عظیم انسانوں پر مُشتمل ہے اور ایٹمی طاقت بھی ہے اس کے خلاف جنگی کارروائی نہ صرف خِطے بلکہ ساری دنیا کیلئے تباہ کُن ہوگی۔ آج کی ایٹمی تابکاری کو سرحدیں نہیں روک سکتی یہ بات دشمن اپنے ذہن میں رکھے ہر احمقانہ حرکت کا مُنہ توڑ جواب ملے گا۔ پاکستان کسی بھی قسم کا بیرونی دبائو ہرگز ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ انشاء اللہ!!

ای پیپر دی نیشن