نواز شریف ٹھیک ہی توکہہ رہے ہیں کہ لاکھوں عوام انہیں ووٹ دیکر وزیراعظم بناتے ہیں اورپانچ افراد انہیں گھر بھیج دیتے ہیں۔ دراصل نواز شریف کا ایمان عوامی عدالت پر ہے‘عدلیہ پرنہیں ‘عدلیہ کوچاہیے انکی یہ خواہش پوری کردے۔ اگرچہ کہ آئین وقانون اسکی اجازت نہیں دیتا لیکن اس ضدی اورلاڈلے شریف کو چاہیے کہ پہلے آئین وقانون میں ترمیم کرلے۔یہ کام آٹھ گھنٹوں یا آٹھ منٹ میں بھی ہوسکتا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی ‘ جے یو آئی (ف) ‘ اے این پی اورایم کیو ایم سب آن بورڈ ہیں۔ ترمیم اس طرح کرلی جائے کہ اعلیٰ عدلیہ کرپشن پر اورصادق وامین ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ خود کرے۔ لیکن اس فیصلہ پرعملدرآمد عوام کرے اورعوام کی مرضی ہوچاہیں تو معاف کردےں یا معاف نہ کرےں۔ عوام معاف کرتے ہیںیا نہیںاسکا فیصلہ کیسے ہوگا۔ نون لیگ اورمذکورہ بالا سیاسی پارٹیوں کا ایک ہی فلسفہ ہے کہ کرپشن‘ قتل وغارت گری اورصادق وامین کا فیصلہ یہی عوام کریں گے۔ لہٰذا ان سب کو چاہیے کہ سارے عوام کو ایک بڑے میدان میں جمع کرلیں اور خود کو ان کے حوالے کردےں ۔ مگر شرط یہ ہو کہ اپنی سیکورٹی ہٹالےں۔ عوام پر اتنا اعتماد ہے تو اسکا عملی مظاہرہ بھی ضروری ہے۔ البتہ عوام میں کسی دہشت گرد‘قاتل یا خودکش کوروکنے کیلئے حد درجہ حفاظتی انتظامات ضروری ہیں بہ الفاظ دیگر عوام بالکل نہتے ہوں۔ پھراس لاکھوں کے ہجوم میں نواز شریف معہ درباری خود کو عوامی فیصلے کیلئے پیش کردیں۔ پھرمعلوم ہوجائیگا عوام کیا کرتے ہیں جو کچھ آپکے کارنامے ہیں اس کا آناً فاناً حساب ہوجائیگا۔ عدلیہ نے تو آپکے ساتھ بڑا نرم رویہ روا رکھا ہوا ہے۔ لندن کے فلیٹس اورمنی لانڈرنگ کے الزامات کے دفاع میں آپ نے نہ آپکی اولاد نے آج تک کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کئے۔ سپریم کورٹ آخری لمحوں تک آپ سے درخواست کرتی رہی لیکن آخری دن بھی آپ نے جھوٹ ‘جعلسازی اورفراڈ کو ہی اپنا دفاعی ہتھیار بنا رکھا تھا۔ جھوٹ پر اس درجہ استقامت دیکھ کر سوائے صدمے کے اورکچھ نہیں ہوتا۔ فکرکھائے جارہی ہے کہ قوم میں بھی یہ ہلاکت خیز رویہ اپنے حکمرانوں کو دیکھ کرراسخ ہوگیا ہے۔ کیا اسکے تدارک کی تدبیر یا فکر کسی کو ہے؟ ہے کوئی مفکرین کی جماعت جو قوم کی ازسر نو اخلاقی تعمیر کارادہ رکھتی ہو؟ یہ وہ چبھتے ہوئے سوال ہیں جو بے چین کئے رکھتے ہیں۔ عدل کے موجودہ نظام‘ اس میں حائل اخلاقی رکاوٹیں اور سست روی پر خود عدلیہ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس میں پائے جانے والے نقائص کو دور کرنا حکومت کا کام ہے جو وہ نہیں کررہی ۔ اخلاقی بگاڑ اور معاشرے میں عدم انصاف کا آپس میں گہر ا تعلق ہے۔ یہی چیزیں حکمران اوراشرافیہ پیدا کرتے ہیں تو اسکا عوام الناس پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ آج ہم انارکی کے جس فیز سے گزر رہے ہیں یہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا چند سال پہلے کراچی سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں لوگ (مشتعل عوام) ڈاکوﺅں کو پکڑ کر خود کیفرکردار تک پہنچانے لگ گئے تھے اگرچہ کہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ہرگز تائیدنہیں کی جاسکتی لیکن بات یہاں تک کیوں پہنچی کہ مشتعل عوام سڑکوں پر خود ہی فیصلہ کرنے لگے؟ ان دنوں ڈاکو بے خوف دندناتے پھررہے تھے انہیں پکڑنے اورفی الفور سزائیں دینے میںحکومتیں ناکام ہوچکی تھیں اس کا نتیجہ سڑکوں پر بڑی بے دردی اورسفاکی سے انتقام لیا جانے لگا تھا۔ کچھ اسی طرح کا نظام نواز شریف اینڈ کمپنی اورزرداری اینڈ کمپنی سندھ میں رائج رکھناچاہتے ہیں۔ لیکن خود کیلئے الگ نظام جس میں ان سے کوئی بازپرس نہ کرسکے۔ اگرکوئی ادارہ کھڑا ہوجائے تو وہ کبھی اس کے پر نوچنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی ناخن نکالنے کی اورزرداری صاحب کہتے ہیں کہ نیب میں اتنی جرات ہے کہ مجھ پر ہاتھ ڈالے۔ اسی لئے دونوں نے مل کر نیب کے موجودہ سربراہ قمر خان چودھری کو منتخب کیا تاکہ وہ انکے احسان تلے دبا رہے۔
اسی لئے کئی ماہ قبل میں نے اپنے کالم میں مطالبہ کیا تھا کہ نیب سمیت تمام اداروں کے سربراہوں کی تقرری کو یا تو خود کارطریقوں سے یعنی اداروں میں ہی ایسا نظام وضع کردیاجائے جوحکومت اوراپوزیشن کے ممبران کے دباﺅ سے بالکل آزاد ہو یعنی انکی تقرری میں حکومت یا اپوزیشن کسی کا بھی ہاتھ نہ ہو ‘ موجودہ آمرانہ طرز حکومت میں ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ جو حال اورابتری ملکی اداروں کی ہے اس سے ملک کی سالمیت کو نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ بات دونوں ادارے اچھی طرح سمجھ لیں کہ موجودہ جمہوری نظام اگر مزید برقرار رہ گیا تو ملک کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس نظام میں حکمرانوں اور لٹیروں سے بازپرس کا کوئی فوری اورموثر طریقہ کار نہیں جس سے انہیں فی الفور کیفر کردار تک پہنچایاجاسکے۔اس کے لئے الیکشن کے قوانین سے لیکر آئین میں اضافے‘ ترمیم اورتنسیخ کرنا ہوگی خصوصاً آئین کی اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنا ہوگا۔
ہم سپریم کورٹ کے معزز پانچ جج صاحبان سے نہایت مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ پناما کیس کے فیصلہ پرواقعی نظرثانی کی جائے۔ اس فیصلہ میں جو نمایاں کثر رہ گئی ہے اس کو ضرور پورا کیاجائے مثلاً فیصلہ محفوظ کرنے والے دن آخری سماعت کے دوران معزز جج صاحب نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے آخری دن جمع کئے گئے دستاویز کے جعلی ہونے پر استفسار کیا تھا کہ اس کی کیا سزا ہے۔ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ سات سال کی سزا ہے۔ دوسری بات قطری خط کے جعلی ہونے پرکوئی سزا نہیں سنائی گئی۔ تیسرے کیلیبری فونٹ کے استعمال کے ذریعے جعلسازی کا کیا ہوا اس کا پتہ نہیں چلا اورچوتھا لندن فلیٹس کا اصل مالک کون ہے اس کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا اورمنی لانڈرنگ کے الزام کے دفاع میں نواز شریف اورانکے اہل خانہ نے کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کئے۔ لہذا ہم مودبانہ درخواست کرتے ہیں کہ عدالت اپنے نظرثانی کے فیصلے میں ملزموں کو سات سال کی قید کی سزا اورمذکورہ بالا جعلی دستاویزات کا تفصیلی تذکرہ ‘قطری خط پر حتمی فیصلہ اورمدعی کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات کے دفاع میں مدعا علیہان کی ناکامی کے تذکرہ کو بھی صراحت کے ساتھ شامل کیاجائے تاکہ نواز شریف کے اس پروپیگنڈے کا تاثر زائل ہوسکے جس میں وہ کہتے ہیں کہ مقدمہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کا تھا اور سزا اقامہ اوربیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر دی گئی ۔