مدرسوں‘ یونیورسٹیوں کے قیام اور دوسرے مقاصد کے لیے اسی طبقہ کی دولت کام آئی۔ انہی سرگرمیوں نے انہیں غیر مسلمانوں کا مقروض بنایا ہوا تھا۔ یہ تمام ایسے حقائق ہیں جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ جاگیرداروں کو اتنا برا کردار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ عام تعلیم یافتہ لوگ تحریکِ پاکستان کے رہنمائوں کو بھی اس نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے تعلیم یافتگان کے نزدیک تحریکِ پاکستان اور ان کے رہنمائوں کا وہی مقام ہے جو بھارتی لٹریچر میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس سوچ نے تحریکِ پاکستان کی روح کو زخمی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جاگیرداری کو نشانۂ تنقیص بنانے والے یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان میں ووٹرز جاگیراروں کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ کیا آج تک کوئی جاگیردار الیکشن نہیں ہارا؟ جاگیرداروں کے ہارنے کی تاریخ پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا جائے تو یہ بہت دلچسپ تحریر ہوگی اور اس کا آغاز 1946ء کے انتخابات سے کیا جا سکتا ہے۔ جن میں بڑے بڑے جاگیرداروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئی تھیں یہ آج بھی ممکن ہے مگر اس وقت کہ جب لیڈر شپ قائد اعظم محمد علی جناح جیسی بااصول ہو‘ نظریاتی اساس دو قومی نظریہ جیسی مقبولیت کی حامل ہو اور سیاسی تحرک اور خلوص ان کارکنوں جیسا ہو جو قائداعظم کی آواز پر اپنی جانیں نثار کرنے پر تیار تھے اور ان کارکنوں میں جاگیر دار بھی شامل تھے۔ پاکستانی سیاست میں بڑے بڑے ’برج الٹتے‘ رہے ہیں تو کیا ہارنے والے زمینداروں نے ان ووٹروں کو زندہ جلا دیا؟ یہ تمام لوگ آج بھی وہاں ہی رہ رہے ہیں۔
پاکستانی جاگیرداروں نے سیاست کے علاوہ دوسرے تمام میدان مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لیے خالی چھوڑے ہوئے ہیں۔ عدلیہ بیوروکریسی‘ فوج جیسے اہم ترین ادارے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے بھرے پڑے ہیں اور اکثریتی تعداد بھی انہی لوگوں اور اداروں کی ہے۔ ان کی ایمانداری اور کردار کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ ادارے نظامِ حکومت اور نظامِ معاشرت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر چند ٹکوں اور عہدوں کی خاطر یہی لوگ بکتے نظر آتے ہیں۔ جاگیردار تو ’خریدار‘ ہیں ’بکائو‘ مال تو مڈل کلاس ہے جو ’ٹائوٹ‘ کا بھیانک کردار ادا کر رہی ہے۔ جاگیر دار کا براہِ راست عوام سے رابطہ کم ہی ہوتا ہے۔ عوام اور جاگیردار کے درمیان واسطہ مخصوص کارندے ہوتے ہیں جن کا تعلق مڈل کلاس سے ہوتا ہے یہی لوگ دراصل ظلم و بربریت کو رواج دیتے ہیں۔
اب تو پاکستانی سیاست میں صنعتکار‘ سرمایہ دار اور کرپٹ مال دار لوگ بھی داخل ہو چکے ہیں جن سے جاگیرداروں کی تعداد شاید آٹے میں نمک کے برابر ہو مگر پھر بھی یہی واویلا ہوتا رہتا ہے کہ تمام برائیوں اور مسائل جاگیرداروں کی وجہ سے ہیں۔ اس سوچ کو عام کرکے دوسرے کرپٹ اور مجرم لوگوں کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔ جاگیردار جتنا بھی برا ہے مگر سماج میں اس کا روایتی کردار ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی رعایا میں مقبول او رباعزت مقام رکھتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سیلاب سے تباہ شدہ خاندان اپنے اپنے وڈیروں کی پناہ میں سہولتیں لے رہے ہوں گے کیونکہ صدیوں سے بسنے والے خاندانوں کو مصیبت میں یہ زمیندار کبھی تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ صدیوں کے خدمت گزاروں پر ان کی ہمیشہ سے سرپرستی رہی اور رہے گی۔
عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ جاگیردار زرعی زمینوں سے کروڑپتی بنے ہوئے ہیں یہ غلط فہمی ہے کیونکہ کھاد‘ مشینوں کا استعمال‘ بجلی‘ پانی‘ مزدوروں کے حصے نکال کر زمیندار کی بچت بہت کم ہوتی ہے۔ ان زمینداروں کو صرف اور صرف ڈیرے داری اور چودھراہٹ بچتی ہے جس کی مدد سے وہ الیکشن جیت جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گنا کی قیمت اور چینی کی قیمت کا فرق دیکھا جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ زمیندار نے کیا کمایا اور صنعتکار نے کیا کمایا؟ اسی وجہ سے پیشتر جاگیرداروں نے صنعت اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی ٹانگ اڑائی ہوئی ہے۔ ورنہ اس طبقے کا یہ حال تھا کہ 1947ء سے قبل یہ تمام لوگ ہندو اور سکھ ساہو کاروں کے مقروض تھے۔ تاریخِ پنجاب پر کتابیں اور دستاویزات ثبوت کے طور پر بھری پڑی ہیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ جاگیرداروں کے علاقوں میں قانون کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ انہی کا حکم قانون ہوتا ہے۔ تو کیا پاکستان کے دوسرے علاقوں میں قانون کی حکمرانی ہے؟ پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہی لاقانونیت ہے۔ ایک لطیفہ ہے شاید کہ افغانستان کا وزارتی وفد پاکستان آیا تو اس میں ایک وزیر ریلوے تھا کسی نے سوال کیا کہ افغانستان میں تو ریلوے ہے ہی نہیں تو وزارت کیوں؟ افغانی وزیر نے جواب دیا کہ اگر پاکستان میں لاقانونیت کے باوجود وزیرِ قانون ہو سکتا ہے تو افغانستان میں بھی وزیر ریلوے ہو سکتا ہے۔ لاقانونیت پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہے جو ہر طبقہ اور ہر ادارہ میں موجود ہے۔ کسی دفتر‘ تھانہ‘ عدالت‘ تعلیمی ادارے غرض کوئی بھی تعلیم یافتگان کی عمل داری کا علاقہ لے لیں وہاں قانون کی حکمرانی نظر نہیں آئے گی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ان قانون شکنوں کے پیچھے جاگیردار ہیں تو اس جرم کے ذمہ دار خود مڈل کلاس کے لوگ ہیں جو اعلیٰ کردار کی بجائے آلہ کار بن کر ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اگر تمام لٹیرے بن جائیں گے تو کردار کہاں سے آئے گی؟اور اگر کردار نہیں آیا تو لیڈر شپ جنم نہیں لے سکتی۔ اگر اکثریتی عوام دیانت داری اور پختہ کرداری کو اپنا لیں تو سماج کے تمام زخم مندمل ہو سکتے ہیں۔ اور یہ کردار عوام ہی نے ادا کرنا ہے کیونکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کسی تبدیلی میں سب سے بڑا کردار مڈل کلاس کا ہوتا ہے۔ (ختم شد)
جاگیرداری کا خاتمہ یا رُول آف لائ؟(2)
Aug 31, 2017