اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت نیوز) قومی اسمبلی نے جنوبی ایشیا کیلئے امریکی پالیسی کو مسترد کر دیا اور ایک متفقہ قرارداد میں مطالبہ کیا ہے پاکستان پر امریکی الزامات واپس لئے جانے تک افغانستان کیلئے پاکستان کے راستے امریکی سازوسامان کی رسد پر پابندی عائد کی جائے۔ قرارداد میںپاکستان پر امریکی الزامات پر احتجاجاً افغان جنگ کیلئے امریکہ کے ساتھ پاکستان کا فضائی و زمینی تعاون معطل کرنے اور فی الوقت پاکستان اور امریکہ کے درمیان وفود کے تبادلے پر بھی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں افغانستان میں امریکی پالیسی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث کے بعد وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف نے تمام جماعتوں کی جانب سے 21نکاتی مشترکہ قرارداد ایوان میں پیش کی۔ اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی ایوان میں موجود تھے۔ متفقہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ نیشنل اسمبلی متفقہ طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 21اگست کو افغانستان و سائوتھ ایشیا سے متعلق بیان میں پاکستان پر الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے، قومی اسمبلی نے افغانستان میں نیٹو کمانڈر جنرل نکلسن کے کوئٹہ اور پشاور میں طالبان شوریٰ کی موجودگی کے الزام کو بھی یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان افغانستان میں بھارت کو کردار دینے کی مذمت کرتا ہے، یہ کردار زمینی حقائق سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے، افغانستان میں بھارت کو بالادست بنانے سے خطہ غیر مستحکم ہوگا۔ قومی اسمبلی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کی سخت مذمت کرتی ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سفارتی، سیاسی، اخلاقی حمایت جاری رکھنے اور ان کے حق خود ارادیت کی تائید کرتا ہے، یہ ایوان امریکہ کے پاکستان کو اربوں ڈالر دینے کے دعوے مسترد کرتا ہے جبکہ حقائق یہ ہیں کہ پاکستانی معیشت کو 123 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، پاکستان کو الزامات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں سے انحراف کے مترادف ہے جبکہ دہشت گردی کی اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں 70ہزار قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور پاکستان وسیع پیمانے پر دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ قومی اسمبلی کا یہ ایوان انسداد دہشت گردی کے آپریشنز اور کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے اور پاکستان کے سکیورٹی کے اداروں کو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے قوم کی پوری حمایت و تائید حاصل ہے۔ ہائوس اس عزم کا اعادہ بھی کرتا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول کا محفوظ ہونا عالمی طور پر مستند ہے۔ قومی اسمبلی کا یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ امریکی صدر اور افغانستان میں نیٹو کمانڈر کے بیانات پاکستان کو یرغمال بنانے اور دھمکیاں دینے کے مترادف ہے، لہٰذا یہ ایوان اس صورتحال میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان کی آزادی و خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدام کیا جائے۔ قرارداد میں امریکہ و افغان حکومت سے مناسب فریم ورک میں افغان مہاجرین کی واپسی کو ممکن بنانے پر زور دیا گیا ہے اسی طرح امریکی امداد کی معطلی کی صورت میں پاکستانی معیشت میں اس کے ممکنہ اثرات کے توڑ کیلئے حکمت عملی وضع کرنے اور امریکہ کی افغان پالیسی کی ناکامی سے بین الاقوامی برادری بالخصوص دوست ممالک کو اعتماد میں لینے اور انہیں پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی سے آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی اس قرارداد میں داعش اور دیگر نیٹ ورک کے افغان صوبوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور اتحادی دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی سرحد آر پار آمدورفت کو روکنے کیلئے اقدامات کریں اور دہشت گرد گروپوں کو پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہ کرنے دیں، افغان حکومت سے اپنی سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں کو جہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے حملے کئے جاتے ہیں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں باہمی احترام کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کیلئے مثبت بات چیت اور سرگرمیوں کی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں خطے میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس امن و استحکام کیلئے حکومت پاکستان کو اپنی کاوشیں جاری رکھنی چاہئیں۔ قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ ارکان قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ ہم نے متحد ہوکر قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ نے پاکستان دشمنوں کو ٹھکانے فراہم کر رکھے ہیں جس کا ان سے جواب مانگا جانا چاہیے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے ہمیں کسی سے ڈرنے اور اس کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں پوائنٹ سکورنگ کی بجائے ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ عید کے بعد اس معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے۔ ہمیں جذبات میں آکر کوئی ایسی پوزیشن نہیں لینی چاہیے‘ ہم سب پہلے پاکستانی ہیں اس معاملے پر کوئی حکومت اور اپوزیشن نہیں ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری خارجہ پالیسی کیوں اتنی کمزور ہوئی کہ امریکا جو ہمارا دیرینہ دوست تھا آج ہمارے خلاف ہوگیا ہے۔ ہمسائے ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں۔ عبدالباسط کا خط حکومت کی ناکامی ہے۔ کیا واشنگٹن اور دہلی کے پاس یہ خط نہیں گیا ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی صدر کی دھمکیوں کیخلاف پوری قوم متحد ہے۔ تمام رہنماؤں کی تقاریر واضح کرتی ہیں کہ پاکستان نے متحد ہو کر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو مسترد کردیا۔ اس جنگ میں پاکستان سے زیادہ بھاری قیمت کسی نے ادا نہیں کی۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا مشاورت کے لیے چین، روس اور ترکی کا دورہ کرنا اچھا ہے لیکن انہیں ایران بھی جانا چاہئے۔ امریکہ نے جو ریڈ لائن عبور کی ہے وہ پاکستان کو ہرگز قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سفارت کاری کو تیز کیا جائے پاکستان کے خلاف فوج کشی کی کوشش ہوئی تو پوری قوم متحد ہوکر مقابلہ کرے گی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو اندر سے تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، بھارتی میڈیا غیر ذمہ دارانہ بیانات کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے، ٹرمپ اور مودی کے بیانات ایک جیسے ہیں۔ پاکستان امریکا کے ساتھ بیک ڈور چینل کھولے، افغانستان میں لڑنے والے تمام 40 ممالک امریکا کے زیر اثر ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے۔ دنیا میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس کے ڈانڈے پاکستان سے نہ ملتے ہوں۔ شیخ رشید نے کہا کہ ایل این جی کے ایسے ایسے پارٹنر نکلیں گے کہ لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کو ٹھکانے فراہم نہیں کر رکھے بلکہ امریکہ اور یورپ نے پاکستان کے دشمنوں کو ٹھانے دے رکھے ہیں ہمیں ان سے جواب مانگنا چاہیے۔ وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ بھارت کو امریکا اس خطے میں علاقائی طاقت کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے۔ پاکستان میں حقانی گروپ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ پاکستان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ وفاقی وزیر سردار اویس لغاری نے کہا کہ جب تک امریکا روس‘ چین‘ ایران اور پاکستان کے ساتھ مل کر آپریشنل معاملے پر بات نہیں کرتا یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کے اندر سیاسی قوتیں نہیں چاہتیں کہ طالبان سیاسی عمل کا حصہ بنیں تو اس میں پاکستان کیا کر سکتا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ عید کے بعد پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔ سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ امریکہ سے اربوں ڈالر نہیں صرف مونگ پھلیاں ملیں۔ امریکی امداد کا آڈٹ کرایا جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان کے بارے میں بیان نہ صرف تضحیک آمیز ہے بلکہ باعث تشویش بھی ہے۔ پوری قوم‘ پارلیمنٹ اور ادارے اس معاملے پر یک زبان ہیں‘ ہم کسی سے جنگ نہیں چاہتے تاہم ہمیں کسی سے ڈرنے یا کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں ہے‘ ہمیں مل بیٹھ کر اپنا بیانیہ درست کرنا ہوگا۔ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا جبکہ امریکہ کی جانب سے اخراجات کی مد میں ادا کئے جانے والے فنڈز 200 ملین ڈالرز سالانہ سے بھی کم تھے، افغانستان کے حالات کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود نہیں ہیں جبکہ افغانستان میں دہشت گردوں کے دس ٹھکانے ہمارے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ڈالروں اور اقتدار کی خاطر پاکستان کا مفاد بار بار بیچا گیا اور بیرونی طاقتوں کو اپنے ملک میں راستے دیئے گئے‘ اسمبلی کی قرارداد یا بیانات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ یک زبان ہو کر پاکستان کے دشمنوں کو واضح پیغام دے۔ امریکہ نے فنڈز میں ہیرا پھیری کی جب تک امریکہ الزامات کلیئر نہیں کرے گا اس کے ساتھ آگے تعاون ممکن نہیں‘ افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ ایک غیر متعلقہ ملک بھارت کو ملوث کرنا ہے‘ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ ڈسپرین کی گولی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا سرجری کرنی ہوگی۔ افغان جنگ کے باعث ہماری سڑکیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا۔ امریکہ کہتا ہے کہ اربوں ڈالر کی امداد دی، ملک کی عزت کا سوال ہے ادارے ایک زبان سے بولیں اور حکومت اور اپوزیشن یک زبان ہو ایوان سے پیغام جانا چاہئے، کسی پر الزام نہیں لگنا چاہئے کوئی محاذ آرائی نہیں چاہتے تمام بیرونی طاقتوں سے تعاون چاہتے ہیں لیکن یہ تعاون یک طرفہ نہیں ہوسکتا ہے دشمنوں کے ایجنڈے پر نہیں ہوسکتا۔ چین‘ ترکی پاکستان کے ساتھ ہیں، ہمیں ان کے پاس جانا چاہئے، ایران ہمار ا آزمایا ہوا اوربااعتماد دوست ہے اسے نظرانداز کرنا درست بات نہیںروس بھی کسی حد تک پاکستان کے ساتھ ہے سوچ سمجھ کر گیم پلان بنائیں تاکہ بلاوجہ ناکردہ گناہ ہمارے ذمہ ڈالا جائے تو ان کو روکا جاسکے اور جو گھیرا ہمارے گرد تنگ کیا جارہا ہے اس کا تیا پانچا کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ اس ملک میں حب الوطنی اور غیرت کے جو جذبات ابھرے ہیں ان کو چینلائز کرنے کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی پالیسی پر یورپی ممالک سے بھی رابطہ کریں گے۔ امریکہ کے ساتھ باہمی اعتماد کے تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم مختلف ممالک کو پاکستان کا بیانیہ بتائیں گے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ خصوصی نمائندہ) وفاقی کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی نے ملک کو درپیش سلامتی کے چیلنجوں کے پیش نظر ملکی دفاع کیلئے نہایت متحرک اور مضبوط انداز اختیار کرنے اور جنوبی ایشیا کیلئے امریکہ کی نئی پالیسی پر سفارشات کی تیاری کیلئے اداروں کی ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سلامتی کمیٹی کا اجلاس بدھ کے روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد جاری سرکاری اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی داخلی و بیرونی سلامتی کی صورتحال، بدلتے علاقائی اور عالمی تناظر میں قومی سلامتی کو درپیش خطرات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں امریکی صدر کی جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی بھی زیرغور آئی اور فیصلہ کیا گیا کہ امریکی پالیسی کا جواب دینے کیلئے مخصوص سفارشات کی تیاری کی خاطر اداروں اور محکموں کی ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ سفارشات آئندہ ماہ سفارتکاروں کی کانفرنس کی روشنی میں تیار کی جائیں گی۔ سفیروں کی کانفرنس 5 سے 7 ستمبر تک ہو گی۔ اجلاس میں قومی سلامتی یقینی بنانے کیلئے دفاعی حکمت عملی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں وزیر دفاع خرم دستگیر، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل محمد ذکاء اللہ، چیف آف ایئر سٹاف ائیر چیف مارشل سہیل امان، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور دیگر سینئر اعلیٰ فوجی اور سول حکام نے شرکت کی۔ دوسری طرف سینٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے بیان پر امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا جائے۔ ایوان نے امریکی صدر کے افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی بیان کے ابتدائی جواب کے طور پر پالیسی رہنما اصولوں پر مشتمل پورے ایوان کی کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دیدی۔ بدھ کو اجلاس کے دوران قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے اس سلسلے میں تحریک پیش کی جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ جب بھی قومی سلامتی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو پارلیمنٹ اس پر ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور تمام متعلقہ فریقین کو اعتماد میں لے کر فیصلے کئے جاتے ہیں، امریکی صدر کے پالیسی بیان کے جواب میں وضع کئے جانے والے پالیسی رہنما اصول عوام کی امنگوں کے مطابق ہیں، تمام متعلقہ فریقین کے درمیان کوئی بھی بات چیت پارلیمنٹ کی چھتری کے نیچے ہی ہو سکتی ہے ، پالیسی رہنما اصولوں پر آئندہ بھی نظرثانی ہوتی رہے گی۔ گزشتہ روز ایوان بالا میں امریکی صدر کے افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی بیان کے جواب میں پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کی رپورٹ پیش کئے جانے کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ نے کہا کہ 22 اگست کو امریکی صدر نے افغانستان اور جنوبی ایشیا پر پالیسی بیان دیا اسی دن سینٹ نے نوٹس لیا، سینٹ کو اگلے دن بلایا اسی اثناء میں مختلف ارکان نے تحاریک التواء اور توجہ دلائو نوٹس جمع کرائے، ان کو ہم نے اکٹھا کیا، 23 اگست کو بحث کے لئے وقت مقرر کیا گیا، 23 اور 24 اگست کو تفصیلی بحث ہوئی اور وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے اس پر بحث سمیٹی، 23 اگست کو ایوان نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے پر کمیٹی آف دی ہول میں غور کیا گیا کہ رہنما اصول وضع کئے جا سکیں۔ اس سلسلے میں ڈرافٹنگ کمیٹی قائم کی گئی۔ کمیٹی نے اپنا مسودہ تیار کیا جس کے لئے وزارت خارجہ اور دفاع کو بھی اعتماد میں لیا گیا، پھر پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس 28 اگست کو ہوا جس میں اس مسودے کو کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے علاوہ دیگر متعلقہ افسران بھی اجلاس میں موجود تھے۔ ارکان نے پہلے مسودے میں کچھ ترامیم تجویز کیں یہ ترامیم پھر ڈرافٹنگ کمیٹی کو بھجوائی گئیں جس کے بعد نیا مسودہ تیار کر کے تمام ارکان اور وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کو بھجوایا گیا۔ 29 اگست کو پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے اجلاس میں اس مسودے کا پھر جائزہ لیا گیا اور اتفاق رائے سے اس کی منظوری دی گئی جس کے بعد اسے اب ایوان بالا میں پیش کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ابتدائی پالیسی رہنما اصول ہیں، ان پر آئندہ بھی نظرثانی ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی قومی سلامتی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو پارلیمنٹ اس پر ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور تمام متعلقہ فریقین کو اعتماد میں لے کر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ پالیسی رہنما اصول عوام کی امنگوں کے مطابق ہیں اگر متعلقہ فریقین کے درمیان کوئی بات چیت ہونی ہے تو یہ بھی پارلیمنٹ کی چھتری کے نیچے ہی ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر سینیٹر سحر کامران، سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر تاج حیدر، مشاہد حسین سید، فرحت اللہ بابر، میاں عتیق شیخ، نزہت صادق، حافظ حمداللہ اور دیگر ارکان نے بھی اظہار خیال کیا اور پالیسی رہنما اصول وضع کرنے پر چیئرمین سینٹ کی کاوش کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کے لئے پارلیمنٹ آئندہ بھی اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ یہ پالیسی رہنما اصول بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں اور ہائی کمشنز کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غیر ملکی سفیروں اور سفارتخانوں کو بھجوائے جائیں اور دفتر خارجہ اس سلسلے میں ایوان کے آئندہ اجلاس میں پیشرفت سے ایوان کو آگاہ کرے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔
وفود کے تبادلے معطل امریکہ کی افغانستان کیلئے روکی جائے:قومی اسمبلی
Aug 31, 2017