ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہاہے امریکی کی نئی افغان پالیسی کے سلسلے میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں پاکستان اورامریکہ تعلقات کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا. پاکستان اور امریکہ کے درمیان فی الحال کوئی اعلی سطح کا رابطہ نہیں ہو ا.افغانستان کے مسئلہ کا فوجی حل ممکن نہیں.افغانستان کی جنگ پاک سرزمین پر نہیں لڑی جا سکتی.بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی امداد اور افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال کا معاملہ اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے.جنرل نکلسن کا بیان غیرضروری اور ناقابل قبول ہے.افغانستان میں دہشت گردوں کے محفو ظ ٹھکانے مو جود ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعما ل ہوتے ہیں.پاکستان افغانستان میں دہشت گردوں کے محفو ظ ٹھکانوں کا معاملہ امریکی اور افغانستان کی انتظامیہ کے کئی بار اٹھا چکا ہے.وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں پاکستانی سفیروں کی کانفرنس 5 سے 7 ستمبر کو ہوگی .کانفرنس میں خارجہ پالیسی کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا جائے گا . مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ معصوم شہریوں کے خلاف بھارتی جرائم پر بھارت کا محاسبہ کرے۔ جمعرات کو ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ گزشتہ دنوں میں افغانستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور غمزدہ خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہوسٹن میں سیلاب کے نتیجہ میں پاکستانی کمیونٹی بھی متاثر ہوئی، سیلاب سے متاثرہ عاقوں میں پاکستانی کمیونٹی نے ریلیف کے کاموں میں بھرپور حصہ لیا، سیلاب میں متاثر ہونے والوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، ایک طرف ہم عیدالاضحی منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دوسری جانب بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھائیوں اور بہنوں پر ظلم و ستم جاری ہے، بھارتی قابض فوج نے حق خود ارادیت کی مقامی جدوجہد کو دبانے کےلئے چار کشمیریوں کو شہید اور چالیس کو زخمی کیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ معصوم شہریوں کے خلاف بھارتی جرائم پر بھارت کا محاسبہ کرے۔ ہم سینئر حریت رہنماشبیر احمد شاہ، مسرت عالم بھٹ، آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی سمیت دیگر حریت رہنماﺅں کی غیر قانونی نظر بندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں لاپتہ ہونے والے 8000کشمیریوں کے خاندانوں اور رشتہ داروں نے پر امن مظاہرہ کیا، لاپتہ ہونے والے افراد بھارتی فوج نے اغواءکر کے جعلی مقابلوں میں قتل کر دیئے اور 2009میں کچھ لوگوں کی گمنام قبریں دریافت ہوئی تھیں۔ عید کے موقع پر ہم دعا گو ہیں کہ کشمیری بہن بھائیوں کو بھارتی قتل عام سے نجات ملے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان فی الحال کوئی اعلی سطح کا رابطہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہاکہ ایک سفیر کا دوسرے سفیر کے نام خط میڈیا میں لیک ہونا افسوناک ہے ۔موجودہ حالات میں میڈیا کو اس خط پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہئے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہمیں ایسی باتوں سے گریز کرنا ہوگا۔وزیر اعظم کی صدارت میں سفراءکانفرنس 5 سے 7 ستمبر کو ہوگی۔وزیر خارجہ نے چارج سنبھالنے کے بعد کانفرنس بلائی تھی۔یہ معمول کی سفرا کانفرنس ہے۔کانفرنس میں خارجہ پالیسی کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا جائے گا۔انہوںنے جنرل نکلسن کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ جنرل نکلسن کا بیان غیرضروری اور ناقابل قبول ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا معاملہ یورپی یونین سے اٹھایا ہے۔گزشتہ جولائی سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں 160 سے زائد نہتے کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔سات ہزار سے زائد کشمیریوں کی بینائی پیلٹ گنز کے استعمال سے متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اس بات کا قائل ہے کہ افغان مسلے کا حل فوجی نہیں ہے۔افغان کے مسلے کا حل سیاسی ہے۔افغانستان کی جنگ پاکستان کی زمین پر نہیں لڑی جا سکتی۔ امریکہ کیساتھ ہمارے تعلقات تاریخی ہیں ۔ دونوں اطراف میں اختلافات کو دور کرنے کے لئے سچ بچار کی جا رہی ہے ۔پاکستان کی پارلیمنٹ اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں امریکی نئی پالیسی پر بحث ہو ئی ہے۔ اس مشاورت کے بعد پاکستان فیصلہ کرے گا اور حکمت عملی اپنائے گا۔ امریکہ کیساتھ بہت سے شعبہ جات میں ملکر کام کیا ہے۔ انسداد دہشتگردی سے لیکر ایٹمی عدم پھیلاو سمیت بہت سے امور پر مشترکہ کاوشیں ہیں۔ دونوں طرف مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی خواہش موجود ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی روشنی میں پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان کے مسلے کا فوجی حل ممکن نہیں۔افغانستان کی جنگ پاک سرزمین پر نہیں لڑی جا سکتی ۔کشمیر کا مسلہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازع ہے۔جموں و کشمیر میں بھارت ہزاروں کشمیریوں کے قتل عام, خواتین کی بھارتی اور ان کی پراپرٹی کو نقصان کا ذمہ دار ہے۔امریکہ کے ساتھ طویل المدت تعلقات ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو دنیا کے متعدد ممالک تسلیم کرتے ہیں۔قومی سلامتی کمیٹی اور دونوں ایوانوں کے فیصلے کی روشنی میں ہم خطے کے دوست ممالک سے رابطہ کر رہے ہیں۔ہم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ مناسب سلوک نہیں ہو رہا۔ہم نے مختلف شعبوں میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق امریکہ سے تعلقات پر اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ہم نے پہلے ہی بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی امداد اور افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا ہے۔انہوں نے کہاکہ ڈوکلام میں بھارت نے دست برداری کا فیصلہ کیا ۔وہ دوسری ہمسائیوں کے ساتھ بھی اسی طرح مسائل کو حل کرے۔