اعتزاز احسن کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کا بظاہر کوئی امکان نہیں کہ یہ بے حس نمبروں کا کھیل ہے جس میں پارٹی وفاداری ہر اصول اور اخلاق پر حاوی ہو جاتی ہے۔ تقابلی جائزے میں ان کے حریف امیدوار کسی طرح بھی ان کے مقابل نہیں ٹھہر سکتے‘ لیکن وہ جو کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا تو ثابت ہورہا ہے کہ بالکل نہیں ہوتا‘ لیکن اعتزاز احسن میدان میں ڈٹے رہیں گے۔ سندھ ساگر کا باکمال داستان گو، برمحل برجستہ شعر کہنے واالا’ میدانِ قانون کا شاہسوار بیرسٹر اعتزازاحسن ایوان صدر میں پہنچ گیا تو منصب صدارت سج جائیگا۔ پاکستان کی عزت، وقار اور عالمی تشخص کو چار چاند لگانے ہیں تو مصنف‘ فلسفی شاعر اور دانشور اعتزاز احسن سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔ جناب ممنون حسین جہان دیدہ اور برصغیر کی زندہ تاریخ تھے‘ لیکن روح و عمل سے خالی ایک ڈھانچہ اس طرح کی کٹھ پتلی سے بہتر ہے کہ ”ریاست ہوگی ماں کے جیسی“ کا درد جگانے والا وہاں موجود ہو جہاں اہم فیصلوں پر توثیق کی مہر لگتی ہے۔ ایوان صدر دراصل مملکت خداداد پاکستان کا چہرہ مہرہ ہے۔ وفاق کی علامت اور پارلیمنٹ کے وقار کی نشان ‘ تن کر سیدھا چلنے والا باوقار اعتزازاحسن صدر پاکستان بن گیا تو پارلیمان ہی نہیں پاکستان کی شان بھی بڑھے گی جو دنیا میں کہیں بھی جائے گا تو پاکستان کے لئے عزت، نام اور ساکھ ہی کماکر لائے گا۔ آئین کے تحت صدر پارلیمان کا حصہ ہوتا ہے۔ صدر مملکت کے وجود سے مل کر ہی پارلیمان مکمل ہوتی ہے۔ صدر کا منصب اگرچہ علامتی ہے۔ پارلیمانی سال کا آغاز صدرمملکت کے خطاب سے ہوتا ہے۔ کسی ربرسٹیمپ صدر کے بجائے اگر کوئی اہل علم، اہل قلم، قانون دان اور ساکھ رکھنے والا شخص اس بڑے گھر میں موجود ہو تو صورتحال یکسر بدل سکتی ہے۔ ایسا شخص جو پارلیمانی نظام کے دکھوں کا مداوا بن کر سامنے آئے۔ جو اس کے افعال کو جمہوری بنانے میں قانونی وآئینی کردار ادا کرے۔ جو محض خاموش تماشائی اور تالیاں پیٹنے والا نہ ہو۔ جس کا کردار ڈوریوں سے حرکت کرنے والے کسی پتلی تماشے ایسا نہ ہو جو حکمران جماعت کی دھن پر ہی محو رقص رہے اور قوم کی لوٹ مار، عزت تارتار ہوتے مجبور محض کی تصویر بنا رہے۔
اگلے ماہ 27ستمبرکو اعتزاز احسن 73برس کے ہو جائیں گے۔ جٹوں کی اعلیٰ نسب شاخ وڑائچ کا یہ فرزند خالص پنجابی کے اوصاف کا حامل ہے طبیعت کا شاعرانہ گداز امڈ امڈ کر باہر آتاہے ایچی سن ‘گورنمنٹ کالج نشان ہائے منزل ٹھہرے اور بعدازاں کیمبرج کے ڈائننگ کالج سے قانون کی تعلیم نے مزاج کو سہ آتشہ بنادیا۔ لندن میں ججوں اور بیرسٹرز کی ممتاز پروفیشنل تنظیم ”سوسائٹی آف اِنز‘ ’گریز اِن‘ سے وابستہ رہے کہ 1967 میں مقابلے کا امتحان”سی ایس ایس امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ اپنے جمہوری نظریات اور قانون کی تعلیم کو زندگی کا اصول بنالینے والے نوجوان کی طبیعت آمرانہ چیرہ دستیوں کو برداشت نہ کرسکی اور اس نے سی ایس ایس کی شاہانہ چمک دمک کو خیرباد کہہ کر قانون کا علم تھام لیا۔ یہ اس کی زندگی کا اہم فیصلہ اور ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ 1970ءمیں پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوئے اور دھاندلیوں کے 1977ءکی عظیم الشان عوامی تحریک کے دوران ضمیر کی آواز پر بھٹو شاہی کاآمرانہ طمطراق گوارا نہ کرسکے اور کالاکوٹ سرکاری ٹیم کی طرف اچھال کر مظاہرین کے ہم زبان ہوکر نعرہ زن ہو گئے اور اب تک ہیں۔ بالوں میں چاندی اتر آئی اور اس کا نظریہ اور مو¿قف حالات کا کوئی تھپیڑا، لالچ یا دھمکی تبدیل نہ کراسکی۔
افتخار محمد چوہدری کی چیف جسٹس کے منصب پر واپسی کی تحریک سے جناب اعتزاز احسن کو الگ کردیں تو داستاں ادھوری رہ جائے گی۔ مشرف کے دور ستم میں اس کا آہنگ ہی نرالا تھا جس نے سماں باندھے رکھا تھا۔ وکلا، احمد فراز اور دیگر شعرا، اور تو اور حمید گل مرحوم سے لے کر ہر شعبہ ہائے زندگی اور میڈیا کی شمولیت اس کی شعلہ بیانی پر ساری قوم فدا تھی۔ مشرف کی وردی اتروانے اور اقتدار کی چولیں ہلانے والا ہیرو اعتزاز نہیں تو پھر کون ہوسکتا ہے؟ اب ان کی مقابل جناب عمران خان کے ”گوہر نایاب“ ڈاکٹر عارف علوی کے بھی بارے کچھ ذکر ہوجائے۔ دندان سازی ورثہ میں پانے والے کراچی کے رہائشی عارف علوی اسلامی جمعیت طلباءکے سرکردہ رہنما تھے۔ جماعت اسلامی سے بنیادی تربیت پانے والے ڈاکٹر عارف علوی کی ”شخصیت“ کا اندازہ ان کے والد مغفور کی وفات سے کچھ دن قبل لکھے ایک خط سے ہوتا ہے جسے پڑھ کر جسم میں جھرجھری دوڑ جاتی ہے اور رہے حضرت مولانا فضل الرحمن و¿ہ تو مشترکہ امیدوار بنا نے آئے تھے‘ لیکن کمال چالاکی اور ہوشیاری سے خود نون لیگ کے امیدوار بن بیٹھے ہیں۔ جناب اعتزازاحسن کا نام منصب صدارت کےلئے سب سے پہلے وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے پیش کیا تھایا تجویز کیا تھا وہ تو پہلے سردار عبدالرب نشتر کے صاحبزادے بنکار غالب نشتر اہلیہ ماہر امراض قلب ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا نام تجویز کر رہے تھے۔ اب ساری کہانی کھل کر سامنے آگئی۔بظاہر یوں محسوس ہورہا ہے کہ یہ دونوں وزیراعظم عمران خان کی اجازت سے پیش کئے گئے تھے‘ لیکن عملی سیاست کی مجبوریاں حاوی ہو چکی ہیں۔
وزیراعظم کے انتخاب کے دن’17 اگست کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور خورشید شاہ سے ملے اور صدر مملکت کے منصب پر مشترکہ،غیر متنازعہ اور شایان شان امیدوار لانے کی تجویز پیش کی جسے خورشید شاہ نے قبول کرتے ہوئے استفسار کیا کس کو نامزد کیا جائے؟ فواد چوہدری نے ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا نام پیش کردیا، خورشید شاہ نے کہا ثانیہ نشتر؟ وہ خاتون جس کو ن لیگ نگران وزیر اعظم بنانا چاہتی تھی؟بیورو کریٹس کو چھوڑو کسی سیاستدان کی بات کرو۔ فواد چوہدری نے کہاکہ شاہ جی سیاستدان کا نام آپ بتا ئیں، خورشید شاہ نے آصف زرداری کا نام لیا جس پر فواد نے معذرت کرتے ہوئے کہا شاہ جی زرداری صاحب پر تو اتفاق ناممکن ہوگا۔
خورشید شاہ نے کہا آپ مناسب بندہ بتاو¿ جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ اعتزاز احسن صدر مملکت کے لئے شان شایان امیدوار ہو سکتے ہیں، خورشید شاہ نے پہلے غور سے وفاقی وزیر اطلاعات کو دیکھا پھر راجہ پرویز اشرف کی طرف مڑے اور ڈیسک پر مکا مار کر بولے Done۔اپنی پارٹی کو راضی کرنا میرا کام ہے۔ اسکے بعد فواد چوہدری چلے گئے اور آج تک پلٹ کر نہیں آئے۔18اگست کو آصف زرداری نے خورشید شاہ کو صدارتی امیدوار بنانے کی پیشکش کی، شاہ صاحب نے معذرت کی اور یوسف رضا گیلانی،رضا ربانی اور اعتزاز احسن کے نام تجویز کیے،جس پرآصف زرداری نے کہا کہ اعتزاز بہترین امیدوار ہوں گے۔
آصف زرداری نے اعتزاز احسن کو اس تجویز سے آگاہ کیا تواعتزاز احسن نے آصف زرداری کو کہاکہ میں ایک شرط پر امیدوار بننے کو تیار ہوں کہ کسی صورت کاغذ واپس لوں گا اور نہ ہی دستبردار ہوں گا۔ چوہدری اعتزاز احسن پانامہ کیس میں نواز شریف کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جس پر جناب پرویز رشید نے معافی مانگنے کا انوکھا مطالبہ کردیا۔ مولانا فضل الرحمان سے افہام وتفہیم کرانے کی ‘ناکام’کوشش کی پیپلز پارٹی کی قیادت اعتزاز احسن کے نام پر ڈٹ گئی اور ان کا مو¿قف ہے شہباز شریف نے آصف زرداری کے خلاف کیا کیا زبان نہیں استعمال کی صرف تنقید کرنے پراعتزاز احسن معافی کالغو مطالبہ شاہانہ عمل ہے مولانا فضل الرحمٰن بظاہر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمت کراتے کراتے خود امیدوار بن چکے ہیں مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں نے انہیں اپنا امیدوار نامزد کر دیا ، جس کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کے صدر بننے کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہو گئیں۔