چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور تعلیمی اصلاحات

سپریم کورٹ نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور کمیٹی کے ارکان کے تبادلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ عدالت کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان، میاں ثاقب نثار نے تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کی۔ جس میں وفاقی محتسب سید طاہر شہباز، فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ اور گلگت بلتستان، آزاد کشمیر سمیت چاروں صوبائی سیکرٹریز برائے تعلیم نے شرکت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے آئین کے آرٹیکل 25-A میں تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دئیے جانے کے حوالے سے، اپنےوژن سے شرکاءکو آگاہ کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لئے تعلیم بنیادی اہمیت کیحامل ہے۔ جب تک ریاستی اداروں کی طرف سے تعلیم پر خصوصی توجہ نہ دی جائے گی، کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کاکہنا تھاکہ تعلیم کے حوالے سے پالیسی بنانا، عدالت کا کام نہیں ہے۔ لیکن ہر شہری کا بنیادی حق ہونے کی وجہ سے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یقینی بنائیں کہ گورنمنٹ اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اس لئے ملک میں معیاری تعلیم کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے تمام کوششیں کی جائیں گی۔ چیف جسٹس نے اجلاس کے شرکاءسے کہا کہ وفاقی محتسب سید طاہر شہباز کی سربراہی میں، ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔ اس ٹی او آرز (TORs) کے لئے کم از کم وقت میں اپنی سفارشات دیں جن میں ملک کے موجودہ تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے حوالے سے، تجاویز شامل ہونا چاہئیں۔ تاکہ شہریوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔ چیف جسٹس نے تمام صوبائی سیکرٹریز اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ اس ٹاسک کی تکمیل تک کمیٹی کےارکان بشمول سیکرٹریز یا آفسر کا تبادلہ نہ کیا جائے۔ اس سے پیشتر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ نے بھی، ایک طویل المدّتی قومی تعلیمی پالیسی بنانے کا اظہار کر چکے ہیں اور اس پر نیکٹا (NECTA) کام کر رہی ہے۔ دونوں طرح کے کام کو....اگر یکجا کر دیا جائے....تو بہتر قومی تعلیمی پالیسی کا وجود سامنے آ سکتا ہے۔ جو دینی اور قومی ترقی کے لئے، ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ دینی مدارس ہوں یا عصری ادارے۔ دونوں کے بارے آئین پاکستان کا آرٹیکل 25-A حق تعلیم، ریاست کی ذمہ داری ٹھہراتا ہے کہ پانچ برس کی عمر سے لیکر سولہ برس کی عمر تک کے لئے مفت اور معیاری تعلیم کابندوبست کرنا ہے۔ ہر پاکستانی بچے کا یہ آئینی حق ہے کہ اس کو دین و دنیا....دونوں طرح کی تعلیم سے روشناس کرایا جائے۔ کیونکہ ”ایمان“ تو بنے گا....دینی تعلیم سے، اور دنیا بنے گی عصری تعلیم سے۔ دونوں علوم کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دینی تعلیم تو ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گویا ”فرض عین“ کا جاننا، ہر مسلمان مرد/ عورت کی ذمہ داری ہے....بلکہ اس کی بنیادی ناگزیر ضرورت ہے۔ اوردینوی تعلیم (عصری تعلیم) بھی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ کیونکہ اسی دنیا کی زندگی میں، آخرت کی زندگی کا سامان تیار کرنا ہے۔ کیونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ (الدنیا مزرعتہ الآخرة) گویا حلال / حرام کی پہچان اور عبادات، نماز، روزہ، حج، زکوٰة وغیرہ اور دیگر معاملات، معاشرت، معیشت، سیاست کے اسلامی رموز کا جاننا بھی، اسی قدر لازم ہے۔ قرآنِ حکیم کی تعلیم ہمارے لئے روشنی مہیا کرتی ہے کہ بچوں کو دینی تعلیمی بھی دو اور دینوی تعلیم بھی۔ دینوی تعلیم سے مراد ....عصری تعلیم ہے، جس میں دورِ حاضر کے تمام مضامین سائنس، ریاضی، فلکیات، تاریخ، جغرافیہ، وغیرہ شامل ہیں اور ظاہر ہے دینی تعلیم میں قرآن، حدیث سنتہ، فقہ اور بالخصوص اسلامی تاریخ (شاہیرِ اسلام) کے بارے تعلیم دینا، ازبس لازم ہے۔ پاکستان کی ترقی کے لئے، میرٹ کی بالادستی، تعلیم، صحت اور انتظامی امور میں بہتری کی ضرورت ہے۔
یاد رہے! کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار ، اس کی اپنی ”قومی زبان“ میں ہی ہے۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک میں سے ، جاپان کو جب آزادی دی گئی تو انہوں نے اپنے سامراج سے ”اپنی زبان“ ہی طلب کی ۔ آج دیکھئے کہ وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں کہاں سے کہاں پہنچا ہوا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اپنی زبان سے اپنے جذبات کا اظہار جس انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ وہ بھی پوری کمانڈ کے ساتھ وہ کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں ۔ جب بھی کوئی قوم دوسری زبان کا سہارالیتی ہے تو وہ بہت سا اپنا ٹیلنٹ ضائع کر چکی ہوتی ہے ۔
قرآن حکیم کی تلاوت نہایت ہی ثواب کا کام ہے ۔ لیکن ا پر تفکر ، ایمان، درجہ احسان تک پہنچتا ہے گویا اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا تصور مستخصر رہتا ہے کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس سے نیکی کرنا”آسان“ اور برائی سے بچنا بھی ”آسان “ ہوتاہے ۔ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لئے تو ایسا ”نصاب تعلیم “ متعارف کرانا ہوگا جو ایمان کو محفوظ، مضبوط بلکہ درجہ احسان تک پہنچانے والا ہو اور ساتھ ہی ہنر بھی دینے والا ہو تاکہ ہم اپنے پاﺅں پر معاشی طورپر کھڑے ہو سکیں اور تمام وقت آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف ہی نظریں نہ لگائے رکھیں کیونکہ بھکاری کبھی بھی ذہنی اور فکری طور پر آزاد نہیں ہوتا۔ فکری اور ذہنی آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اسلام کی تعلیم کا اپنا ایک اعجاز ہے جہاں پر قرآن و سنت کی تعلیم ہوگی۔ نور ہی نور ہوگا۔ رحمت ہی رحمت ہوگی ۔سکون ہی سکون ہوگا ۔ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اس قرآن حکیم کی تعلیم کی برکت سے ، نفرتوں کو دور کرتے ہیں دلوں کو جوڑتے ہیں ایک دوسرے کی آپس مں محبت دلوں میں ڈالتے ہیں ۔ قرآن حکیم کے یہ الفاظ ”کآفة للناس“ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں آپ کو پوری انسانیت کے ”مبعوث“ کہا گیاہے ۔ اور آپ کا یہ ارشاد مبارک کہ میری امت کے پچھلوں کی اصلاح ویسے ہی ہوگی جیسے پہلوں (یعنی قرون اولیٰ) کی ہوتی ہے تو گویا ہمیں اسی نصاب تعلیم کی طرف رجوع کرنا ہوگا ۔
یاد رہے ! قرآن حکیم میں 750آیات ایسی ہیں ، جن میں ” عصری علوم“ کی طرف اشارہ ملتا ہے جو کہ آج کل پڑھائے جا رہے ہیں ۔ اس نصاب تعلیم کو متعارف کرانے کے لئے پہلے تین چار برس تک نصاب کا تیار کرنا کتب کا تیار کرنا استاتذہ کی تربیت ، نظام امتحان کا نئے سرے سے جائزہ لینا ، اس نصاب کی تعلیم کی شروعات کے لئے درکار ہے۔
پہلے دس یا بارہ برس فرض عین کی تعلیم دی جائے ۔ اس کے بعد طلبہ اپنے اپنے ذوق صلاحیت (Potential)رجحان کے مطابق عالم /مفتی بنیں گے ۔ اور عصری علوم کی طرف جانے والے ڈاکٹر، انجینئر ، سائنس دان ، جغرافیہ دان ، مورخ وغیرہ بن کر اپنی صلاحیتوں کو قوم کے لئے وقف کر دیں گے ۔
ظاہر ہے نصاب تعلیم کو اسلامائز (ISLAMISE) کرنا ہے مغربی نظریات کی جگہ اسلامی نظریات کو لانا ہے اسی کے مطابق طریقہ تدریس اور طریقہ جائزہ ہوگا قرآن حکیم کی تعلیم کا ایک یہ بھی اعجاز ہے کہ وہ دماغکے سوتوں کو کھولنا اور کشادہ کرتا ہے ۔ دماغ کئی گنا زیادہ کام کرتا ہے ذہنی تطھیر اور بالیدگی ہوگی قلبی صفائی ہوگی جرا¿ت و حوصلہ بلند ہوگا۔ ”وھن“ ختم ہوگا ۔ مومن بزدل نہیں ہوتا۔ مومن کے پاس ایمان کی دولت ہے۔ جو موت کو ہی اصل زندگی سمجھتی ہے۔ وہ بھی ابدی انشاءاللہ تعالیٰ ہم اپناکھویا ہوا وقار اگلی چوتھائی صدی میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔ اور پوری انسانیت کی رہنمائی کرنے کے قابل ہوگی ۔ یہی منشائے ایزدی اور یہی فریضہ اقامت دین اور یہی خلافت و نیامت کا حق ادا کرنے کا ذریعہ ہے یہی امت مسلمہ کا فریضہ ہے جو آپ کے ختم نبوت کے طفیل اس مسلم امة کو تحفہ میں ملا ہے آئیے ! اسکی قدر کریں کیونکہ اسی کے ذریعے سے ہم عہدالست کو پورا کرنے کا قابل ہوں گے یا د رہے اس بڑے مقصد کے حصول کےلئے پولیٹیکل ول (POLITICAL WILL)اور علماءکرام کا تعاون ازبس لازم ہے تمام سیاسی جماعتیں اسے اپنے ”انتخابی منشور“ کا حصہ بنائیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...