شرافت‘ سچائی اور دیانت داری کا پیکر سادگی اور عاجزی کی دولت سے مالا مال ہر خاص و عام کیلئے رہنمائی اور اعانت کا حوصلہ رکھنے والے آس و امید کا دامن نوبہار تھامے اپنے صحافتی اور ادبی سفر پہ گامزن جناب سعید آسی صاحب کیلئے یہ الفاظ صرف میرے اپنے احساسات کی ترجمانی نہیں کررہے بلکہ یہ ان کے ہم عصر اور ہم قلم معزز و محبوب ہستیوں کے الفاظ ہیں جو ان کی کتاب ”تیری بکل دے وچ چور“ کی تقریب رونمائی کے موقع پر سننے کو ملتے رہے جب کوئی نئی کتاب میرے سامنے آتی ہے تو سب سے پہلے میں اس کتاب کو دیکھتی ہوں پھر سمجھتی ہوں اور تیسرے مرحلے میں اس کتاب کی وہ باتیں جو میرے دل پہ اثر کرتی ہیںان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ”تیری بکل دے وچ چور“ کتاب کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد مجھے لگا اگرچہ یہ تلخ حقیقت ہے مگر ہے غور طلب۔ دراصل آسی صاحب نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی اپنی بکل اوڑھنی یا پھر اندر یعنی باطن کے چوروں کو پکڑنے کی کوشش کریں۔ غفلت اور لاپروائی کی زندگی کبھی تا بندگی نہیں بن سکتی۔ دوسروں پہ تنقید کرنے‘ کیچڑ اچھالنے یا پھر برا بھلا کہنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اپنے حصے کی شمع جلائیں گے تو روشنی ہوگی اپنی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے معنوں میں دیکھا جائے تو نفس کا چور سب سے بڑا چور ہوتا ہے جو ہمارے اندر نقب لگائے بیٹھا ہوتا ہے اور ہماری روحانی اخلاقی دولت کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر سے جذبہ حب الوطنی احساس ہمدردی‘ خدمت انسانیت اور خلوص جیسی بڑی دولت لوٹ رہا ہے اور ہم بے خبری میں پڑے ہوئے ہیں۔
تخلیق کار چاہے وہ شاعر ہو یا ادیب کسی بھی معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے اس پہ عام انسانوں کی نسبت حالات و واقعات زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ سعید آسی صاحب نے اپنی کتاب میں گزشتہ دو برس کے دوران ہونے والے ان تمام حالات و واقعات پر قلم اٹھایا ہے جن کا تعلق سیاسی‘ معاشرتی یا پھر اخلاقی ا ور روحانی موضوعات سے ہے۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اللہ کی ذات نے آسی صاحب کو وسعت قلب و نظر عطا کی ہے کسی بھی شخصیت کے نام و مقام حاصل کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد اس انسان کی محنت اور لگن اسے مقام ناز تک پہنچا دیتی ہے۔ آسی صاحب کا قلم اپنے منفرد اور بے مثال انداز میں ہر موقع پر اٹھتا ہے وہ پانامہ لیکس کا مسئلہ ہو‘ ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی بات ہو‘ پانی کی کہانی ہو‘ کالا باغ ڈیم پہ سیاست ہو‘ بیروزگاری کاکرب ہو‘ بلاول کے ہاتھوں جیالا کلچر کی بحالی ہو یا پھر احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر کا شکار تیل بھرنے والے غربت زدہ انسانوں کی کوئلہ بنی لاشوں کا ذکر وہ ہر موضوع پر سیر حاصل تبصرہ و تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ہمارے سابق وزیراعظم اپنے کاروباری معاملے میں جن مسائل کا شکار ہوئے اور پانامہ لیکس کا مسئلہ سامنے آیا اس پہ صحافت مجید نظامی مرحوم کے مشورے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد میاں نوازشریف اپنے والد مرحوم میاں محمد شریف اہلیہ کلثوم نواز اور بھائی میاں شہبازشریف کے ہمراہ مشاورت کی غرض سے محترم مجید نظامی کے پاس ان کی اقامت گاہ پر آئے اور حکومت پر ان سے تبادلہ خیال کیا اور اچھی حکمرانی کیلئے ان سے رائے مانگی تو محترم مجید نظامی نے انہیں ایک ہی مشورہ دیا۔ آپ اقتدار میں ہیں اپنے کاروبار سے الگ ہوجائیں اور ساری توجہ ملک اور عوام کی خدمت پر مرکوز رکھیں۔ ”کھونٹے سے بندھی بے چارگی “ میں اظہار رائے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”اگر ایسی ہی فضا رہی تو نام نہاد اشرافیہ اور زور آور طبقات کے ہاتھوں پسے کچلے جانے والے انسانوں کے مقدرات میں زبردستی ڈالے گئے دکھوں کا مداوا کیسے ہوپائے گا۔ سو کیتھارسس ہونا چاہئے‘ ڈائیلاگ کا راستہ بہر صورت نکلنا چاہئے۔ بات شروع کی تو آگے بڑھانی چاہئے ورنہ دلوں کا حبس بڑھتے بڑھتے جان لیوا ہوجائے۔“
زندگی کی رونقیں ہوں یا موت کی غم ناک حقیقت آسی صاحب ہر موقع پر اظہار خیال کرتے ہیں۔”بے ثبات زندگی کے مظاہر“ میں لکھتے ہیں۔”آدمی اس دھرتی پہ کیا کچھ کر گزرنے کے عزم باندھتا ہے دنیا زیر کرنے کی ٹھانتا ہے۔ نخوت و تکبر میں اپنے تیئں خدا بن بیٹھتا ہے مگر زیر و زبر کی قوت رکھنے والے رب کائنات کی رضا کو کبھی نہیں سمجھ پاتا۔ اگر فانی انسان کل نفس ذائقہ الموت کے فلسفہ خالق کائنات کو پلے سے باندھ لے تودنیاوی آلودگیوں کو زندگی کی آسودگی سمجھنے کی لت میں کبھی مبتلا نہ ہو مگر یہ سمجھ تب آتی ہے جب انسان اپنے پاﺅں پہ کھڑا ہونے کی سکت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ ”یعنی کھالے پی لے موج اڑا لے ہی زندگی نہیں۔“
آج کے اس پرہنگم اور افراتفری سے بھرے دور میں کتاب اور صاحب کتاب سے تعلق ضروری ہے۔ انسان چاہے ابلاغ کے لاکھ نئے راستے تلاش کرلے مگر کتاب کی اہمیت اور وقعت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ محترم و محبوب ڈاکٹر اجمل نیازی کہتے ہیں کتاب سے رشتہ جوڑنا ہوگا کتاب کسی خوبصورت خواب کی طرح کسی بھی وقت انسان کو مہکا سکتی ہے ”تیری بکل دے وچ چور“ کتاب کو قلم فاﺅنڈیشن نے شائع کیا ہے پڑھے لکھے صاحب کتاب احباب جناب چیئرمین عبدالستار عاصم اور محترم فاروق چوہان صدر قلم فاﺅنڈیشن عمدہ اور شاہکار کتابیں چھاپنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ اللہ انہیں ترقی و عروج عطا فرمائے آخر میں سعید آسی صاحب کے اشعار پیش خدمت ہیں۔ ....
حبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا نظر آتا ہے
کرکے تدبیر کوئی تازہ ہوا لی جائے
ویسے تو دکھ ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
پھر بھی یہ عدل کی زنجیر ہلالی جائے!!