اسلام کے نظام الاوقات اور ہمارے روز و شب

Aug 31, 2018

پروفیسر عمران ملک
اسلام کہ جس نے ہمیں نظم و ضبط دیا، ہمیں صبح و شام گزارنے کا سلیقہ و طریقہ سکھایا۔اسلام نے ہمیں اسی طرح وقت گزارنے اور زندگی کو ایک نظم و ضبط میں لانے کے لیے عبادات، رزق اور زندگی کے باقی معاملات میں کچھ نہ کچھ سکھایا۔وقت جو کہ ہر انسان کے لیے قیمتی ہے۔اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمت ہے۔قیامت کے بارے میں اس نعمت کے بارے میں سوال بھی کیا جائے گا۔کہ تم نے اپنی عمر کہاں گزاری؟، اس نعمت کا کیسے استعمال کیا ؟ لہذا اس کاصحیح استعمال ہی شکران نعمت ہے۔
وقت ہر حال میں گزر جائے گا اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے وقت کیسے گزارنا ہے۔ ان اصول و ضوابط کے تحت کہ جو اسلام نے ہمار لیے مقرر کیے اور ہمیں جو نظام اس کائنات پر غور کے نتیجے میں سمجھ آتا ہے یا پھر وہ آج کا نظام جس کو ہم اپنا کر اپنی زندگیوں کو خود مشکل بنا چکے ہیں۔نبی مہربانؐ کی احادیث سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے اس میں آپؐ نے فرمایا کہ جب صبح ہو جائے تو نماز فجر کے بعد رزق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں۔تو کیا ہماری زندگی میں ایسا کوئی رویہ موجود ہے۔
نبی کریم ؐنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے دو نعمتیں ایسی ہیں، جس کی بہت سے لوگ قدر نہیں کرتے،صحت ور فراغت(بخاری)۔اسلام وقت کو دن کے آغاز سے متعین انداز سے لے کر چلتا ہے۔جس کی وجہ سے وقت میں برکت بھی ہوتی ہے۔اور کام بھی مکمل ہو جاتے ہیں۔اگر ہم حقیقی مسلمان کا ذکر کریں تو ہمیں بہت سی چیزیں نظر آتی ہیںکیوں کہ مسلمان کو متعین وقت پر جاگنا ضروری ہے۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنا لازمی ہے۔اس کے بعد دوسرے اوقات میں وہ اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے۔اپنے دین کی سمجھ رکھنے والا مسلمان کبھی غافل اور بے کار نہیں رہ سکتا۔متعین وقت پر وہ کھانا کھاتا ہے۔ اس طرح زندگی کو ایک خوبصورت اور منظم انداز میں گزارتا ہے۔
اسلام نے ہمیں جو نظام الاوقات دئیے وہ اس قدر خوبصورت اور اس قدر با برکت ہیں کہ انسان ایک دن میں کئی قسم کے کام سر انجام دے سکتا ہے لیکن موجودہ دور کے اندر ہمیں وقت کی کمی کا رونا ہے ، تو وہ ہماری اپنی وجہ سے ہے کہ ہم وقت کو اس ترتیب سے نہیں گزارتے جو ہمیں اسلام نے بتایا۔لیکن اس کے برعکس ہمیں یورپ میں وقت کی قدر اور وقت کو منظم کرنے کا جو انداز نظر آتا ہے وہ تو حقیقت میں ہمارا نظام تھا۔ لیکن آج یورپ اس پر عمل پیرا ہے۔ کئی دوستوں نے تذکرہ کیا کہ جب صبح ابھی ہمارے ہاں فجر کا وقت ہوتا ہے تو مغربی ممالک میں دوڑ لگی ہوتی ہے۔لوگ اپنے اپنے کاموں کی طرف نکل رہے ہوتے ہیںایسے جیسے ابھی کام نمٹانا ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہ انگلینڈ گیا وہاں وہ زیرزمین ریل کے سفر میں تھا، صبح طلوع شمس کے وقت اسٹیشنز پر بھیڑ تھی اور لوگ اپنے اپنے کاموں کو روانہ ہو رہے تھے۔ جب کہ ہمارے ہاں رات کو جاگا جاتا ہے اور سورج انتہا تک آنے تک لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ پھر سوال کیا جاتا ہے برکت نہیں۔ پھر گلہ کیا جاتا ہے کام لیے وقت نہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ بچوں کے لیے وقت نہیں۔
اقبال نے اس لیے مسلم نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں جو دل ہوتا ہے سیپارہ
اگر ہم اپنی اصل کی طرف دیکھیں تو ہمیں اگر کامیابی مل سکتی ہے کام میں برکت آسکتی ہے تو وہ ہمارے اپنے نظام الاقات کو اسلامی رنگ میں رنگنے سے۔
نبی مہربانؐ کے معمولات او ر اوقات بندی
نبی مہربان ؐ کی زندگی انتہائی منظم اور مربوط تھی۔ اللہ کے نبی ؐ اپنی زندگی کو اپنی بھر پور مصروفیت کے باوجود ایسے گزارتے تھے کہ اپنی بیویوں کا حق بھی ادا ہو جائے۔ معاشرے کو بھی وقت دے سکیں ، حکومت کا نظام بھی چلا سکیں ، دعوت دین کا کام بھی کر سکیں۔ اور آرام بھی کر سکیں۔ نبی کریم ؐکا بیدار ہونے کا اپنا وقت تھا۔ رات کو آرام کا اپنا وقت اور دیگر کاموں کے لیے اللہ کے رسول ؐنے نمازوں کے اوقات سے اپنے آپ کو مربوط کر رکھا تھا۔ذیل میں نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ کے واقعات سے دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے اپنی زندگی کو کس طرح گزارا۔
سیدنا ابو برزہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ظہر کی نماز سورج کے زوال ہونے کے ساتھ ہی پڑھ لیا کرتے تھے۔اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی کہ ہم میں سے ہر آدمی مدینہ کے دور دراز نواح سے جا کر واپس آسکے۔ اور سورج خوب روشن ہوتا تھا۔مجھے مغرب کے بارے میں یاد نہیں رہا۔اور آپؐ بعض اوقات عشاء کی نماز کی رات کے تیسرے پہر تک تاخیر کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔راوی نے بعد میں آدھی رات کا تذکرہ کیا۔ اور دوسری عشا ء سے پہلے سونا اور بعد میں باتیں کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔اور فجر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے کہ ہم میں سے ہر آدمی ایک دوسرے کو پہچان سکے۔
نبی کریم ؐاپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کیا کرتے تھے۔اور کبھی بھی فجر کے بعد دوبارہ سویا نہیں کرتے تھے۔ آپؐ رات کو جلد سونے کو پسند کیا کرتے اور رات کو عشا ء کے بعد باتیں کرنا مکروہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ اپنی زوجین کو بھی وقت دیا کرتے تھے اور زندگی کے باقی معاملات کو بھی بخیر و خوبی چلایا کرتے تھے۔اللہ کے رسولؐ فجر کے بعد سونے کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔اصل میں فجر کے بعد رزق میں برکت عطا کی جاتی ہے۔ تو جو فرد فجر کے بعد بھی سویا رہا تو گویا اس کے رزق میں برکت چلی جاتی ہے۔ہمارے لیے کوئی آئیڈیل زندگی ہو سکتی ہے تو وہ حضور نبی کریم ؐ کی ہی ہو سکتی ہے

مزیدخبریں