اسلام آباد (خبر نگار) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے ریلوے میں انکشاف کیاگیاہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ ادارہ خسارے میں جا رہا ہے۔ ادارے کی آمدن اگر 100 روپے ہے تو 105 روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور کبھی بھی ٹرانسپورٹ پالیسی نہیں بنائی گئی۔ گزشتہ حکومت کی آخری کابینہ کمیٹی میں ایک پالیسی کی منظوری دی گئی تھی جس پر اب کام شروع کیا جائے گا۔ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد اسد علی خان جونیجو کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 16 اگست کو ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے علاوہ بقیہ ایجنڈے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت ریلوے کی کارکردگی، کام کے طریقہ کار اور مسائل بارے تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔ قائمہ کمیٹی کو ریل کاراور پاک ریلوے ساما ن برداری کے معاملات بارے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ سیکرٹری ریلوے محمد جاوید انورنے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت ریلوے کے ماتحت چار مختلف پرائیوٹ کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں جن کا کنڑول ریلوے کے ادارے کے پاس ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سامان کی ترسیل کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن مسافر ٹرینوں کی بہتری کیلئے صرف کی جاتی ہے۔ ادارے کی آمدن اگر 100 روپے ہے تو 105 روپے خرچ کیے جاتے ہیں جس کو مزید بہتر کیا جارہا ہے فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ ادارہ خسارے میں جارہا ہے۔ اراکین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ کبھی بھی ٹرانسپورٹ پالیسی نہیں بنائی گئی۔ گزشتہ حکومت کی آخری کابینہ کی کمیٹی میں ایک پالیسی کی منظوری دی گئی تھی جس پر اب کام شروع کیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت اس حوالے سے تجاویز مرتب کرے تاکہ اسے عملی جامہ پہنا کر نہ صرف ریلوے کا خسارہ پورا کیا جا سکے بلکہ عوام کو سفر کی بہتر سہولیات میسر کی جا سکیںاور اس حوالے سے قائمہ کمیٹی وزارت ریلوے کو ہر طرح کا تعاون فراہم کرے گی ۔ رکن کمیٹی سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ادارہ مسلسل خسارے میں ہے اور یہ تاثر ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں تباہ ہو چکا ہے جس پر سیکرٹری ریلوے نے کمیٹی کو بتایاکہ 15 ارب سے آمدن 55 ارب تک پہنچ چکی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریلوے بہتری کی طرف گامزن ہے ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے 20 سالہ پلان ترتیب دے دیا ہے جسے بورڈ نے منظو ر کر لیا ہے اور اب یہ کیبنٹ میں منظوری کیلئے بھیجا جائے گا۔ یہ 20 سالہ منصوبہ تین مراحل میں تریب دیا گیا ہے ۔60 فیصدریل اور انجن کا سٹاک اپنی عمر پوری کر چکا ہے اب مرمت بھی نہیں ہو سکتی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 16159سامان بردار بوگیوں میں سے 9823 خراب ہو چکی ہیں، 1822 مسافر کوچز میں سے 606 اپنی معیاد پوری کر چکی ہیں اور 2995 ریلوے ٹریک میں سے 55 فیصد لاہور، کراچی، پشاور ٹریک اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ ایم ایل 2-3 ٹریک 80 فیصد اپنی عمر پوری کر چکا ہے ۔ کمیٹی اجلاس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 13900 پلوںمیں سے 11000 پل 100 سالہ پرانے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کی آمدن کا بڑا حصہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی مد میں صرف ہو جاتا ہے جو ادارے کے خسارے کی بڑی وجہ ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال2017-18 میں 30.96 ارب کی پنشن ادا کرنی ہے جو گزشتہ سال 28.73 ارب کی تھی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 96765 جس میں 20689 اسامیاں خالی ہیں جبکہ10 ہزار ٹیکنیکل ملازمین کی بھی کمی ہے۔ وزارت ریلوے سے بجلی کے بل کمرشل ریٹ پر وصول کیے جاتے ہیں جبکہ ادارہ ملازمین سے گھریلو بنیاد پر بل کی کٹوتی کرتا ہے جس کی وجہ سے سالانہ ایک ارب کا نقصان ہوتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی محمد اسد علی خان جونیجو نے کہا کہ دونوں ادارے سرکاری ہیں بہتر یہی ہے کہ واپڈا اور وزارت ریلوے کو بلا کر معاملات کا جائزہ لے کر موثر حل نکالا جائے کسی بھی ادارے کا نقصان ملک کا نقصان ہے جس پر انہوں ریلوے کو اپنی تجاویز بنا کرپیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ ریلوے ٹریک کی بہتری کیلئے کمیٹی کو بتایا گیا کہ موجودہ ریلوے ٹریک کو بہتر کیا جارہا ہے کیونکہ نیا سٹراکچر بنانا ممکن نہیں ہے۔ کراچی سے شاہدرہ ڈبل ٹریک ہوچکا ہے جبکہ آگے کام جاری ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایران اور افغانستان کے ساتھ ہمارے ریلوے ٹریک مختلف جگہوں پر درست نہیں ہیں جن کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور مستقبل میں ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کراچی سے گوادر ریلوے کا آخری روٹ ہوگا جبکہ طے شدہ منصوبے کے تحت ملک کے باقی روٹ پہلے بنائے جائیں گے۔