پہلے تو مودی کا شکریہ جس نے مسئلہ کشمیر سے 72 سال بعد پنگا لیکر اس میں نہ صرف جان ڈالی ہے بلکہ نئی حرارت و توانائی بھی فراہم کی ہے۔ لگتا ہے اب کشمیریوں کو آزادی کا سورج طلوع ہوتا بہت ہی جلد دکھائی دے گا۔ پاکستان کو کشمیر کیلئے جنگ اپنے قوت بازو پر لڑنا ہوگی۔ کشمیری تو 72 سال سے لڑ رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان شہید ہوچکے ہیں۔ ہماری بہنوں‘ بیٹیوں کے سہاگ اجڑے‘ بچے یتیم ہوئے مگر جذبہ حب الوطنی اور قوت ایمانی میں ذرا بھر کمی نہیںآئی۔ 72 سال سے ہم کشمیری مسلمان بہن بھائیوں کی مدد اس حد تک ضرو کر رہے ہیں کہ 5 فروری کو تعطیل کر دی اور ایک بیان جاری کر دیا کہ ’’ہم کشمیریوں کی سفارتی‘ اخلاقی‘ حمایت جاری رکھیں گے۔‘‘ بس اس سے آگے کچھ نہیں بلکہ ہمارے ایک سابقہ وزیراعظم کے ’’مودی‘‘ کے ساتھ یارانے اور دوستیاں بھی رہیں۔ ابھی بھی ہونگی۔ ساتھ ہم نے عرصہ دراز سے ان ’’مولانا‘‘ صاحب کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنائے رکھا جن کی کشمیر کے ساتھ نہیں بلکہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بننے سے جو ’’مراعات‘‘ ملتی تھیں ان سے ’’مولانا‘‘ کی غرض تھی۔ ان مولانا کے والد صاحب مرحوم نے ہمارے امام صحافت مجید نظامی کو سامنے کہا تھا کہ ’’شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے جرم میں شریک نہیں تھے۔‘‘ حال ہی میں دیکھئے ان مولانا صاحب کا کشمیر کیلئے کوئی بیان سامنے آیا ہو۔ موجودہ حکومت ابھی بنی بھی نہیں تھی مگر اپنا الیکشن ہارنے کے بعد ’’مولانا‘‘ نے حکومت کو گرانے کیلئے جدوجہد شروع کر دی تھی۔ اب تو کئی ’’ریلیاں‘‘ بھی نکال چکے ہیں۔کئی بار اے پی سی بھی بلا چکے ہیں مگر مجال ہے کسی بھی اپوزیشن لیڈر کو ’’مولانا‘‘ سمیت کشمیر کی موجودہ حالت زار پر اے پی سی بلانے کی توفیق ہوئی ہو۔ ہم نے سابقہ ادوار میں مودی کے ساتھ دوستیاں نبھا کرکشمیر ایشو کو کمزور کیا ہے۔ سفارتی سطح پر موجودہ حکومت نے پوری دنیا میںکشمیر مسئلے کو جس طرح اجاگر کیا ہے یقینا قابل ستائش ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ میں کشمیریوں کیلئے خود سفیر بنوں گا قابل تعریف ہے۔ رسمی ہی سہی موجودہ حکومت کے کہنے پر ہی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ تمام ممالک میں احتجاج ہو رہا ہے۔ اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے مگر کشمیر کے حصول کیلئے دوسروں سے مدد کیلئے توقع رکھنا ہی عبث ہے۔ مفادات کی دنیا سے سب کو اپنے اپنے مفادات عزیز اور مقدم ہیں۔ آگ میں دوسرے کیلئے کوئی بھی نہیں کودتا۔ آپ اپنے گھروں میں جائزہ لیں۔ اپنے خاندانوں میں غور کریں جو بہن بھائی غریب ہوتا ہے باقی سگے بہن بھائی اس سے بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔ دولت مند آ دمی دولت مند کو ہی قرض دے گا۔ شادیاں بھی اپنے ہم پلہ خاندانوں میں کی جاتی ہیں۔ یہ توخاندانوں کی حد تک ہے۔ایک ملک کے دوسرے ممالک سے مفادات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام مسلم ممالک ایک ہوتے مگر قطعاً نہیں۔ اسی لئے تو پوری دنیا میں مسلمان مار کھا رہے ہیں۔ کشمیر کیلئے پاکستان کو اب عملی اقدامات فوراً لینا ہونگے۔ باتوں کا وقت گزر چکا ہے۔ قائداعظم نے کشمیر کو شہ رگ قرار دیا تھا مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ 72 سال میں ہم نے آج تک قائداعظم کی کونسی بات مانی ہے۔ ہمارے حکمران دولت جمع کرنے میں ہی لگے رہے ہیں۔ ہندوستان نے آئین میں کشمیر کے بارے میں دفعات 370 اور 35 اے ختم کر دی ہیں۔ کوئی فکر والی بات ہی نہیں۔ آئین پر عمل کرتا کون ہے۔ یہ توض محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ قائداعظم نے کئی بار فرمایا کہ پاکستان کی قومی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ 73ء کے آئین میں بھی درج ہے۔ آج تک نہ ہی کسی حکومت نے اس پر عمل کیا اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ نے اس کی پروا کی۔ پاکستان کو اب کشمیریوں کیلئے آخری حد جنگ بھی کرنا ہوگی۔ اعلی عدلیہ نے اس کی پروا کی۔ پاکستان کو اب کشمیریوں کیلئے آخری حد جنگ بھی کرنا ہوگی۔ موت برحق ہے۔ موت تو گھر بیٹھے بھی آجاتی ہے مگر شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ آج جو ممالک ہمارا ساتھ نہیں دے رہے‘ جب ہم اپنی ایمانی قوت سے جنگ کا آ غاز کریں گے تو یہی ممالک ترلے واسطے دیں گے اور جنگ ختم کرانے کیلئے آگے آئیں گے کیونکہ جنگوں کے اثرات دور دور تک جاتے ہیں۔ جارحیت وہ اور کیا کرے گا؟ کرفیو سے زندگی جہنم بنا دی گئی ہے۔ بھوک‘ پیاس سے کشمیری مصائب میں مبتلا۔ مسلمان بھوکا ہو پیاسا ہو تو شدت سے لڑتا ہے۔ کربلا کی تاریخ گواہ ہے۔ کوئی بات نہیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میںہم بھی شہید ہوکر اپنے اللہ کا دیدار کریں گے۔ ہم تو شہید ہوکر بھی ’’زندہ‘‘ رہیں گے مگر حرامی مودی کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ اس نے گجرات میں بھی ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے۔ ہماری 22 کروڑ عوام ساری کی ساری پاک فوج ہی تو ہے۔ آیئے اپنے کشمیری مسلمان بہن بھائیوں کا عملی طورپر ساتھ دیں اور حرامی مودی کو سبق سکھائیں اور اپنی شہ رگ آزاد کرائیں۔
’’کشمیر سے متھا۔ ’’مودی‘‘ تیرا شکریہ‘‘
Aug 31, 2019