آج ایک دلچسپ بات سے آغاز کرتے ہیں جنرل الیکٹرک سے معاہدے کے بعد ان کے چیئرمین / سی ای او Jeff Immelt نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا انہی دنوں لاہور میں امریکی قونصل جنرل Zack سے ملاقات ہوئی میں نے انہیں چیئرمین جنرل الیکٹرک کی پاکستان آمد کا بتایا تو ان کا کہنا تھا چیف منسٹر! مجھے اس کا علم نہیں مگر وہ تو صدر اوباما سے بھی زیادہ مصروف آدمی ہے وہ پاکستان آنے کا وقت کیسے نکال سکتا ہے جبکہ یہاں سکیورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ مسٹر جیف نومبر 2015 ء میں پاکستان آئے ۔ اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ان کی ملاقات میں دیگر شرکاء کے ساتھ میں بھی موجود تھا مسٹر جیف کی یہ بات ہم سب کیلئے بے پناہ مسرت کا باعث تھی وزیراعظم کا چہرہ بھی خوشی سے کھل اٹھا جب انہوں نے کہا، مسٹر پرائم منسٹر! میرے پاکستان آنے کا مقصد آپ کا شکریہ ادا کرنا تو تھا ہی مگر اس سے بڑھ کر میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ جنرل الیکٹرک نے دنیا بھر میں ہزاروں میگا واٹ کے پلانٹ فروخت کئے ان میں مڈل ایسٹ میں بڑے بڑے پراجیکٹس بھی تھے مگر شفاف بولی (Transparent Bidding) کا جو نظام آپ کے ہاں دیکھا اور قیمتیں کم کروانے اور اپنے ملک و قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کیلئے جو کاوشیں آپ لوگوں کی طرف سے بروئے کار آئیں ایسی مثال میں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھی آپ کی زیر قیادت آپ کی ٹیم نے جس لگن اورفرض شناسی کا مظاہرہ کیا اس سے متاثر ہوکر میں نے فیصلہ کیا کہ خود پاکستان جاکر اپنے تاثرات سے آپ کو آگاہ کروں یہ بلاشبہ پاکستان کیلئے بے پناہ اعزاز اور وقار کی بات تھی کہ دنیا کی اتنی بڑی کمپنی کا سربراہ پاکستان آکر ہماری کاوش کا اعتراف کر رہا تھا۔
دوپہر کے کھانے پر مسٹر جیف نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا چیف منسٹر! جنرل الیکٹرک نے فیصلہ کیا کہ ہم،'' Corporate Social Responsibility (CSR) ''کے ساتھ صنعتی میدان میں سرمایہ کاری کے طور پر 50 ملین ڈالر (اس دور کے تقریباً 5 ارب روپے) پاکستان میں خرچ کریں گے اس پر میں نے اپنے ایک ساتھی سے مذاقاً کہا کہ چونکہ جنرل الیکٹرک کو ایک دھیلا بھی ’’نذرانے‘‘ کے طور پر دنیا نہیں پڑا اس لئے انہوں نے سوچا ہوگا کہ جو رقم ’’نذرانے‘‘ کی مد میں رکھی تھی اس میں سے کچھ رقم CSR کے طور پر اعلان کر دیں ۔
یہاں میں امریکیوں کے ساتھ اپنے دلچسپ مکالمے کا ذکر بھی کرتا چلوں جنرل الیکٹرک کے پلانٹ جدید ترین تھے اور نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کے آغاز میں کچھ ٹیکنیکل مسائل بھی سامنے آتے ہیں (جن کا پہلے اندازہ نہیں ہوتا) تکنیکی زبان میں انہیں Teething Problems کہا جاتا ہے مگر ان منصوبوں میں کچھ زیادہ ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کے فوری حل کیلئے دن رات میٹنگز ہوتیں۔ ضروری پر زوں کی جلد از جلد فراہمی کیلئے (جنرل الیکٹرک کے خرچ پر) جہاز چارٹر کرانے سے بھی گریز نہ کیا جاتا۔ بسااوقات میں اس صورتحال پر رنجیدہ بھی ہو جاتا ایسے میں امریکیوں کے ساتھ تلخی ترشی بھی ہو جاتی ایک بار مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہ تھی کہ امریکی دوستوں نے پاکستان کو اسلحہ سے لیکر بجلی کے منصوبوں تک ’’ٹیسٹنگ گراؤنڈ‘‘ سمجھ لیا ہے۔
بجلی کے منصوبوں کیلئے ، میں نے ترک سرمایہ کاروں کو بھی پنجاب میں سولر پاور پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی اور انہیں ان پراجیکٹس پر فی یونٹ 6 سینٹ سے بھی کم ریٹ پر آمادہ کر لیا یہ 2017ء کی بات ہے جب سولر پراجیکٹ میں نیپرا کا ٹیرف 10.5 سینٹ فی یونٹ تھا۔ اس کے مقابلے میں ٹیرف میں فی یونٹ 4.5 سینٹ کی کمی سے فی 100 میگا واٹ یہ 45 ملین (ساڑھے چار ارب) ڈالر کی بچت تھی ترک کمپنیوں نے سرمایہ کاری شروع کر دی مگر سیاسی حالات کی تبدیلی کے بعد یہ شاندار منصوبہ سرخ فیتے کی نذر ہو گیا اور میری معلومات کے مطابق اب کام بند پڑا ہے جس سے ترک سرمایہ کاروں کو نقصان اٹھانا پڑا اور جس سے پاکستان کی نیک نامی متاثر ہوئی ۔
CPEC کے تحت ساہیوال کول پراجیکٹ میں میرے اصرار پر چینی کمپنی اپنے منافع سے سالانہ 2 فیصد پنجاب میں تعلیم اور صحت کے منصوبوں کیلئے عطیہ کرنے پر آمادہ ہو گئی یہ رقم سالانہ تقریباً پچیس، تیس کروڑ روپے بنتی ہے جو اس پلانٹ کی مدت (تقریباً تیس سال) تک ملتی رہے گی (یعنی تیس سال میں تقریباً 7.5 ارب روپے) کسی سرمایہ کار کی طرف سے اپنے خالص منافع میں اتنی بڑی رقم کا عطیہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی مثال تھی ۔
یہ منصوبے، تمام تر مشکلات اور غیر متوقع مسائل کے باوجود تاریخ کی مختصر ترین مدت میں مکمل ہوئے (ہمارے اپنے وسائل سے بننے والے گیس سے بجلی پیدا کرنے کیلئے منصوبے دنیا کی حالیہ تاریخ میں سستے ترین بھی تھے) CPEC کے تحت ساہیوال کول پاور پروجیکٹ نے جون 2017ء میں سپلائی شروع کی تھی اور پورٹ قاسم نے بھی 2018ء میں پیداوار شروع کر دی بھکی شیخوپورہ بلوکی اور حویلی بہادر شاہ کے (تینوں) گیس پاور پراجیکٹس بھی 2018ء میں بجلی پیدا کرنے لگے بہاولپور میں CPEC کے تحت 300 میگا واٹ کا سولر پروجیکٹ بھی تھا اس پر بھی ’’دیوانوں‘‘ کی طرح کام ہوا کچھ سامان چین سے (چینی سرمایہ کار کے خرچ پر) ہوائی جہازوں پربھی لایا گیا جس کی کلیئرنس کیلئے کسٹم والوں نے عید کی چھٹیوں میں بھی کام کیا تاکہ بجلی کی پیداوار شروع ہونے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ ہو۔
یہاں نندی پور کے المیے کا ذکر بھی ہو جائے تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے 500 میگا واٹ کے اس منصوبے پر اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 30 ارب روپے تھا (جسے بولی (Bidding) کے بغیر غیر شفاف طریقے سے ایوارڈ کر دیا گیا تھا) اس کا سامان تین سال تک کراچی کی بندر گاہ پر گلتا سڑتا رہا قیمتی ترین پرزے چوری ہوتے رہے اس کی فائل اس دور کی وزارت قانون کی الماری میں کہیں بہت نیچے پڑی رہی جسٹس رحمت حسین جعفری پر مشتمل سپریم کورٹ کے کمیشن نے اس دور کے وزیر قانون بابر اعوان کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
وزیراعظم نوازشریف صاحب نے نندی پور کے اس مردے کو زندہ کرنے کی ذمہ داری بھی میرے سپرد کی تین برسوں کی تاخیر اور اس دوران سامان کی تباہی و بربادی کے باعث یہ منصوبہ 27 ارب روپے کی اضافی لاگت کے ساتھ تقریباً 57 ارب روپے میں مکمل ہوا یہ غریب پاکستانی قوم کے ساتھ سخت ظلم اور زیادتی تھی نہایت تکلیف دہ اور شرم ناک بات، نندی پور کے مردے کو نئی زندگی دینے میں متعلقہ وفاقی و صوبائی وزراء اور افسران کے ساتھ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کیپٹن (ر) محمود احمد کی شبانہ روز محت کا بھی اہم کردار تھا۔
اب میں حویلی بہادر شاہ میں حکومت پنجاب کے دوسرے منصوبے کی کہانی سناتا ہوں جیسا کہ گزشتہ کالم میں بیان ہو چکا کہ کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے میری تجویز کی سخت مخالفت کے بعد بالآخر اس کی منظوری دیدی لیکن میرے مجوزہ منصوبوں کو 5000 کی بجائے 3600 میگا واٹ کر دیا (گیس پاور پلانٹس کے ان 3 منصوبوں میں سے 2 کیلئے وفاقی حکومت نے اور ایک کیلئے پنجاب نے وسائل فراہم کرنا تھے میرے ذہن میں 5000 میگا واٹ کا ٹارگٹ موجود رہا اس کی دو تین وجوہات تھیں، کسی بجلی گھر میں بڑی فنی خراب کی صورت میں پھر لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا سامنا ہوگا۔ کئی دہائیوں پرانے، تیل سے چلنے والے بجلی گھر ناکارہ ہو چکے ہیں یہ تیل زیادہ پیتے اور بجلی کم پیدا کرتے ہیں (ان کی تبدیلی بھی وقت کی ضرورت ہے) چنانچہ میں نے وزیراعظم اور کابینہ کمیٹی کو چوتھے گیس پاور پلانٹ کی تجویز پیش کی جو منظور کرلی گئی ماضی
قریب و بعید میں اس سے چلنے والے ایسے منصوبوں کے مقابلے میں ان منصوبوں کی قیمت آدھی جبکہ ان کی صلاحیت ( EFFICIENCY) کہیں زیادہ تھی۔ قیمت میں کمی سے سپرد ہوا لیکن کچھ ابتدائی اقدامات کے بعد مزید پیش رفت نہ ہو سکی۔ 2017ء میں کابینہ کمیٹی کی منظوری کے ساتھ یہ منصوبے پنجاب نے اپنے ذمے لے لیا اور اللہ کا نام لیکر کمر کس لی۔
گزشتہ منصوبے امریکہ کی جنرل الیکٹرک کمپنی کے سپرد ہوئے تھے اور آغاز میں کافی TEETING PROBLEMS کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب میری خواہش تھی کہ اس چوتھے منصوبے کی ’’(بڈنگ) جنرل الیکٹرک کی ہم پلہ کوئی اور بی الاقوامی کمپنی میرٹ پر ( اور شفاف مسابقت کے ساتھ) جیت لے۔ اس سے یہ بھی ہو گا کہ ( انگریزی محاورے کے مطابق) ہمارے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں ہوں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ چوتھے منصوبے کی بولی بھی جنرل الیکٹرک نے جیت لی جس نے گزشتہ منصوبوں والی’’ قیمتوں‘‘ ہی کی پیشکش کردی۔
یہ چوتھا منصوبہ 1250 میگا واٹ کا تھا (بھکی منصوبے سے 100 میگا واٹ زیادہ)۔ میں نے جنرل الیکٹرک سے بھکی منصوبے والی شرائط اور اسی قیمت کا مطالبہ کیا، حالانکہ یہ منصوبہ اس سے 100 میگا واٹ زیادہ تھا اوریوں اس کی قیمت 10 ارب روپے مزید کم ہو جانا تھی۔ میں نے اس کے لیے جنرل الیکٹرک کو 24 گھنٹے کا وقت دیا۔ انہوں نے اپنی جوائنٹ و ینچر پارٹز(JV Patner) ، چینی کمپنی سے مشاورت کے لیے 48 گھنٹے مانگے ۔ چینی کمپنی کے انکار پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی چنانچہ ہم دوبارہ ٹینڈرنگ کی طرف چلے گئے۔ اس بار جرمن کمپنی سیمنز (siemens) نے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور سب سے کم بولی پر ٹینڈر جیت لیا۔ لیکن ان سے بھی میرا وہی مطالبہ تھا، جو جنرل الیکٹرک سے تھا۔ میرے لیے یہ بات خوشگوار حیرت سے کم نہ تھی کہ سیمنز (siemens) ہماری شرائط مان گئی۔ بھکی منصوبے کی قیمت 4 لاکھ 55ہزار ڈالر فی میگا واٹ تھی جبکہ حویلی بہادر شاہ، پنجاب حکومت کا یہ دوسرا منصوبہ 1250)میگا واٹ( ہمیں 4 لاکھ 15ہزار ڈالر فی میگا واٹ میں پڑا۔ سیمنز (siemens) نے CSR کے طور پر ایک ٹیکنیکل کالج بنانے کا بھی اعلان کیا۔ ڈیڑھ سال میں شروع ہونے والے 4 منصوبوں میں 162 ارب روپے کی بچت کی تاریخ کا عجوبہ نہ تھا؟ ملک کو لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں سے نجات دلانا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی ایسے میں قیمت ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے یہ منصوبے کم ترین مدت میں اور کم ترین قیمت میں مکمل ہوئے۔
مزید یہ کہ یہاں اس افسوسناک حقیقت کا اظہار بھی کرتا چلوں کہ ہماری حکومت سے پہلے کے منصوبے مقررہ مدت میں مکمل ہوئے، نہ مقررہ قیمت میں ۔ مثلاً 970 میگا واٹ کے نیلم جہلم منصوبے کی اصل قیمت 800 ملین ڈالر اور مقررہ مدت 6 سال تھی لیکن یہ 19 سال میں 5 بلین ڈالر( اُس دور کے پانچ سو ارب روپے میں مکمل ہوا) نندی پور منصوبے کی اصل قیمت 30 ارب روپے تھی اور مدت 3 سال تھی، یہ 8 سال میں 57 ارب روپے میں مکمل ہوا۔ہر حساس دل یہ سوچ کر تڑپ اٹھتا ہے کہ مملکت خداداد اور اسکے عوام کے ساتھ کیا کیا ظلم ہوتے رہے۔ یہ المیہ بھی اپنی جگہ کہ سستے ترین منصوبوں سے حاصل ہونے والے بجلی کے بل اب ہر ماہ غریب گھرانوں پر بجلی بن کر گر رہے ہیں۔ آئیے! ہم سب اپنے رب کے حضور مغفرت کی التجا کے ساتھ، ملک و قوم کی خدمت کے لیے مزید توفیق اور استطاعت کی دُعا کریں۔
امریکیوں سے میری’’ تلخی ترشی‘‘ اور چوتھا منصوبہ
Aug 31, 2019