سرینگر(بی بی سی) برطانوی نشریاتی ادارے نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ بی بی سی کے رپورٹر نے مقبوضہ کشمیر کے جنوبی اضلاع کے علاقوں کا دورہ کیا جہاں عوام نے انہیں بھارتی افواج کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم کی داستانیں سنائیں۔ رپورٹ کے مطابق کشمیریوں نے رات گئے بھارتی چھاپوں، مار پیٹ اور تشدد کی ملتی جلتی کہانیاں سنائیں اور بھارتی سکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات لگائے۔ مقبوضہ وادی کے محصور شہریوں نے یہ بھی بتایا کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی فوج گھر گھر گئی، بھارتی فوج نے راتوں میں چھاپے مار کر گھروں سے لوگوں کو اٹھایا اور سب کو ایک جگہ پر جمع کیا۔ شہریوں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے ہمیں مارا پیٹا، ہم پوچھتے رہے ہم نے کیا کیا ہے لیکن وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا اور بس ہمیں مارتے رہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق شہریوں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیئے، تاروں سے پیٹا، جب بیہوش ہو گئے تو انہوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیئے، بھارتی فورسز نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انہوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیئے۔ ایک کشمیری نوجوان نے بی بی سی کے رپورٹر کو بتایا کہ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ یہ تشدد ناقابل برداشت تھا، بھارتی فورسز سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں، بس گولی مار دیں۔ رپورٹ کے مطابق شہری نے بتایا کہ سکیورٹی اہلکار پوچھتے رہے کہ پتھراؤ کرنے والوں کے نام بتاؤ اور وارننگ دی کہ کوئی بھی بھارت مخالف مظاہروں میں شرکت نہ کرے۔ بی بی سی کے مطابق کشمری شہریوں نے کہا کہ مظالم جاری رہے تو گھر چھوڑ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ وہ ہمیں ایسے مارتے ہیں جیسے جانوروں کو مارا جاتا ہے۔ بھارتی فوجی ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے باوجود مقبوضہ وادی کے ڈاکٹرز صحافیوں سے کسی بھی مریض کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔ دانش عزیز کا تعلق مظفر آباد کے علاقے چکوٹھی سیکٹر سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے تو ایک ٹرک ڈرائیور ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر کے واحد کفیل بھی ہیں۔ 30 برس کے دانش عزیز تقریباً دس سال سے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف ٹرک کے ذریعے سے سامان کی ترسیل کا کام کر رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک وہ ہر قسم کے معاشی مسائل سے آزاد تھے لیکن ایل او سی پر تجارتی سرگرمیوں کی بندش کی وجہ سے اب انہیں ہر طرف سے مالی پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے جس سے ان کے گھر کا چولہا بھی ٹھنڈا پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔