وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی کی بھارت کوایک بارپھر مذاکرات کی مشروط پیشکش

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کو مذاکرات کی مشروط پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو دو طرفہ مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں جبکہ کسی تیسرے فریق کی معاونت یا ثالثی کو بھی خوش آمدید کہا جائے گا۔ایک خصوصی انٹرویو میں وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا لیکن بھارت کی جانب سے مذاکرات کا ماحول دیکھائی نہیں دے رہا۔ایسے ماحول میں جہاں کرفیو نافذ ہے، لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، گینگ ریپ ہو رہے ہیں، لوگ قید و بند کی صعبتیں برداشت کر رہے ہیں مجھے تو مذاکرات کا کوئی ماحول دکھائی نہیں دے رہا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر مقبوضہ کشمیر سے کرفیو فوری ہٹایا جائے، لوگوں کے حقوق بحال کیے جائیں، پوری کشمیری قیادت جو پابند سلاسل ہے اس کو رہا کیا جائے اور مجھے کشمیری قیادت سے ملنے کی اجازت دی جائے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔اس جھگڑے کے تین فریق ہیں۔بھارت، پاکستان اور کشمیر۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر بھارت سنجیدہ ہے تو پہلے کشمیری رہنمائوں کو رہا کرے اور مجھے اجازت دے کہ میں کشمیری قیادت سے مل پائوں اور مشاورت کر سکوں۔ مجھے ان(کشمیری قیادت)کے جذبات دیکھنا پڑیں گے۔ ان کے جذبات کو پامال کر کے اور کشمیریوں کے جذبات کو روند کر مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھا جا سکتا۔شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ پاکستان کے پاس جنگ کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کبھی جارحانہ پالیسی نہیں اپنائی اور اس کی ترجیح ہمیشہ امن ہی رہی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ موجود حکومت کو برسرِاقتدار آئے ہوئے ایک سال ہوا ہے اور اس عرصے کے دوران حکومت نے متعدد مرتبہ بھارت کو بیٹھ کر اس مسئلے کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کو کہا کیونکہ جوہری ہتھیاروں کے حامل دو پڑوسی ممالک جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ جنگ سے لوگوں کی بربادی ہو گی، دنیا بھی اس سے متاثر ہو گی، تو جنگ کوئی آپشن نہیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی جس طرح 26فروری کو کی گئی تھی تو افواج پاکستان بھی تیار ہیں اور قوم بھی۔26فروری کو کی گئی جارحیت کا 27فروری کو منہ توڑ جواب دیا گیا تھا، بھارت کے دو جہاز مار گرائے اور ان کے پائلٹ کو گرفتار کیا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک بڑا موثر غزنوی میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے، تو قوم با لکل تیار ہے۔پاکستان کی سفارتی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ایک مسئلہ جو سالہا سال نظروں سے اوجھل رہا وہ سینٹرل سٹیج پر آ گیا ہے۔پوری دنیا میں اس پر بحث ہو رہی ہے۔ مغرب میں احتجاج ہو رہے ہیں اور سلامتی کونسل میں 54 برسوں بعد یہ معاملہ زیرِ بحث آیا ہے۔ جو مسئلہ بیک برنر پر تھا آج بین الاقوامی ہو گیا ہے۔خلیجی ممالک کی جانب سے کشمیر پر موثر آواز نہ اٹھانے اور متحدہ عرب امارت اور بحرین کی جانب سے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو ایوارڈز سے نوازنے پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک کے بھارت سے کاروباری روابط اور دو طرفہ تعلقات ہیں تاہم کشمیر کے معاملے پر ان کا موقف واضح ہے۔وہ(خلیجی ممالک)ہمارے دوست ممالک ہیں جنھوں نے آڑے وقت میں ہمارا ساتھ دیا جب پاکستان کی معیشت دبا ئو میں تھی۔ پاکستان ڈیفالٹ کرنے والا تھا، قوم کو نہیں بھولنا چاہیے کہ کیامتحدہ عرب امارات اس وقت ہماری مدد کو نہیں آیا تھا کیا سعودی عرب نے ساتھ نہیں دیا؟ آج لاکھوں پاکستانی سعودی عرب اور عرب امارت میں روزگار حاصل کر رہے ہیں کیا ان کی مالی ترسیلات نہیں آ رہی ہیں؟ جب آپ ایک رائے بناتے ہیں تو پوری تصویر کو سامنے رکھ کر بناتے ہیں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں جب حقائق سامنے آئیں گے تو خلیجی ممالک ساتھ دیں گے۔انھوں نے بتایا کہ ان کی مستقبل قریب میں متحدہ عرب امارت کے وزیرِ خارجہ سے بھی بات ہو گی اور وہ انھیں پاکستانیِ قوم کے تاثرات اور جذبات پہنچائیں گے۔سعودی عرب کے کردار پر ان کا کہنا تھا کہ انھیں توقع ہے کہ نیو یارک کشمیر گروپ کا جو اجلاس ہو گا اس میں سعودی عرب بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا۔ جب آپ اجلاس میں آتے ہیں تو ایک پوزیشن لیتے ہیں اور اس کے نتائج کا کوئی دستاویز ہو گا جو ان کے ذہن اور پالیسی کی عکاسی کرے گا۔وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی عوام کے آواز کی ترجمانی نہیں کرتی۔ انھوں نے کہا کہ او آئی سی ممالک کے عوام کشمیریوں کے ساتھ مکمل ہمدردی رکھتے ہیں، حکمرانوں کے مصلحتیں ہوتی ہیں وہ دو طرفہ تعلقات دیکھ کر نپی تلی بات کرتے ہیں۔شاہ محمود نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی رائے سوچ کو بدل دیتی ہے اور جیسے جیسے حقائق سامنے آئیں گے ان (حکمرانوں)کی رائے بدلے گی۔شاہ محمود قریشی نے نریندر مودی کے اس موقف کو مسترد کیا کہ کشمیر دو ملکوں کا آپس کا معاملہ ہے۔ یہ معاملہ دو ملکوں کا نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مانا گیا تنازعہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 11قراردادایں موجود ہیں جس کے تحت بھارت  پابند ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کی تقاریر لوک سبھا کے ریکارڈ پر موجود ہیں جو سنہ 1948 اور سنہ 1951 میں بھارت کے مندوب تھے۔ ان کے خیالات قلمبند ہوئے ان کی تقاریر ریکارڈ کا حصہ ہیں جو اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان تشریف لائے تھے تو انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور اسے لیے وہ کمپوزٹ ڈائیلاگ کا حصہ بنے۔پاکستان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی توقعات ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے ان توقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں وہ اس کو اپنا سٹریجیٹک پارٹنر بھی سمجھتے ہیں اور اگر بھارت کی حکومت کو کوئی متاثر کر سکتا ہے تو وہ امریکہ کی حکومت ہے۔صدر ٹرمپ نے خود کہا کہ وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں، پاکستان نے اسے قبول کیا۔ بھارت نے صدر ٹرمپ کی خواہش اور مذاکرات کی دعوت کو مسترد کیا۔  بھارت نے سکیورٹی کونسل کی قرارداد سے راہ فرار اختیار کی۔پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر پر مذاکرات ہوئے اور یہ کہا گیا کہ مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے تاہم وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کی حکومت میں بیک چینل پر کچھ پیش رفت ہوئی تھی تاہم اس میں سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ اس میں کشمیریوں کی آواز شامل نہیں تھی۔ آپ کوئی فیصلہ کشمیریوں کی رائے کے بغیر کیسے کر سکتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر یو این ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ میں ایک انکوائری کمیٹی بنانے کی تجویز تھی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے کمیشن کو لکھا ہے کہ آپ آزاد کشمیر آئیں ہم معاونت کریں گے، آپ کو اجازت ہے جہاں چاہیں جائیں جس سے ملنا چاہیں ملیں۔ اس کے بعد اسی طرح  مقبوضہکشمیر میں جائیں اگر بھارتی  اس کی اجازت دیتے ہیں اور پھر یہ رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کریں۔

ای پیپر دی نیشن