صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف ازخود نوٹس، ڈی جی ایف آئی اے، اٹارنی جنرل، دیگر کی طلبی

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد، چیئرمین پیمرا اور اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سمیت تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کر لیا۔ عدالت نے صحافیوں سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری کارروائی کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔ سماعت کا آغاز ہوا تو 3 صحافیوں نے اپنی درخواستیں واپس لینے کے لئے متفرق درخواستیں دائر کیں تو عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ وہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق متعلقہ دفتر میں اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اب چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا ہے تو تین رکنی بنچ اس کیس کو آگے بڑھائے گا۔ عدالت ریاست کے متعلقہ حکام کو طلب کر کے صورتحال کے بارے میں سوال کرے گی اور متاثرین کو بھی سنا جائے گا۔ کیونکہ عدالت نے خود کو مطمئن کرنا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی۔ پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صدر نے کہا کہ صحافیوں کے مسائل موجود ہیں۔ عدالت نے کہا کہ آئین کا تحفظ ذمہ داری ہے۔ اس معاملے میں اب آئین کے آرٹیکل 184(3)کا اطلاق ہوچکا ہے۔ کیونکہ عدالت کو لگا ہے کہ حالات ایسے ہیں اور بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں۔ اب کوئی اس معاملہ میں پیش ہو یا نہ عدالت کیس آگے بڑھائے گی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میڈیا قوم کی آواز ہے۔ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین پاکستان میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے۔ آزادی صحافت کا ذکر تو بھارتی اور امریکی آئین میں بھی نہیں۔ کوئی قانون آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہوا تو اسے کالعدم قرار دیدیں گے۔ کمرہ عدالت خالی بھی ہوا تو بھی اس معاملے کی سماعت کرینگے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ تنخواہوں اور چھانٹیوں کے معاملے پر بھی عدالت صحافیوں کیساتھ کھڑی رہی۔ صحافیوں کو گرفتاری کے حوالے سے تحفظ حاصل ہے۔ جہاں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے عدالت وہاں صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس دوران امجد بھٹی نے موقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ معاملہ زیر التوا ہے۔ عدالت چاہے تو معاملہ وہاں بھیج دے۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہائیکورٹ میں زیرسماعت مقدمات کی رپورٹ بھی طلب کر لیتے ہیں۔ ہم ایک مفصل مشق کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اب وقت آچکا ہے کہ سپریم کورٹ سارے معاملے کو دیکھے۔ کیونکہ اس ملک کے عوام اور صحافیوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ ریاست کے ادارے صحافیوں سمیت عوام کو تحفظ دینے کے پابند ہیں۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ جس طرح بطور جج ہم سیاست نہیں کر سکتے، اسی طرح صحافی بھی سیاست نہیں کر سکتا۔ صحافی کا کام صحافت کرنا ہے۔ صحافت اور آزادی اظہار رائے تہذیب کے دائرے میں ہونا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن