امریکی فوجیوں کی پاکستان آمد اور تصاویر پر طوفان برپا ہے۔ یہ طوفان اس لیے بھی ہے کہ امریکہ کو اڈے دینے کے حوالے سے کیے گئے سوال پر وزیراعظم عمران خان نے واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے انکار کر دیا تھا۔ اب یار لوگ ان فوجیوں کی آمد کو اس انکار سے جوڑ رہے ہیں۔ کسی کی محبت اور کسی کی نفرت میں بیانات جاری کر رہے ہیں۔ ان بیانات سے نہ تو وزیراعظم عمران خان کو فرق پڑتا ہے نہ ہی امریکی فوجیوں نے واپس جانا ہے نہ ہی جن کی وجہ سے دو مختلف معاملات کو جوڑ کر مہم چلائی جا رہی ہے انہیں بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمارے اپنے لوگ امن، دوستی، ہمدردی، تعاون اور رواداری کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ وہ جنہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے دشمن، ہزاروں مسلمانوں کے قاتل، کشمیری مسلمانوں پر زندگی تنگ کرنے والے، قصائی کے نام سے بدنام نریندرا مودی اور ان کے ساتھیوں کو بغیر کسی ویزے کے اپنے گھر بلا لیا تھا وہ بھی بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہے ہیں۔ پاکستان نے غیر ملکیوں کی مشکل وقت میں میزبانی کے فرائض انجام دیے ہیں اور ایک مرتبہ پھر دنیا کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان امن دوست ہے، پاکستان مشکل میں پھنسے افراد کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ پاکستان نے کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، حالت جنگ میں اعلیٰ اصولوں کی پاسداری کی ہے۔ دنیا می پاکستان کے اس عمل کو سراہا جا رہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں امن کے لیے اب تک جو کردار ادا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے گوکہ پاکستان کے دشمن منفی مہم چلا رہے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے اس عمل سے دنیا کو ایک منفرد پیغام گیا ہے۔
پاکستان نے افغانستان میں کسی کو اپنا فیورٹ قرار نہیں دیا جو افغانستان میں آ رہے ہیں پاکستان امن کے لیے ان کے ساتھ ہے اور جو افغانستان سے نکل رہے ہیں پاکستان امن کی خاطر ان کی میزبانی کر رہا ہے گوکہ نکلنے والوں کو خدشات بھی تحفظات بھی ہیں چونکہ ان کے مقاصد پورے نہیں ہوئے اور وہ پاکستان سے ناراض بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے انہیں ریسکیو کیا ہے۔ مدد کی ہے ساتھ دیا ہے۔
پاکستان میں اس معاملہ پر حکومت کو برا بھلا کہا جا رہا ہے لیکن دنیا ہماری تعریف کر رہی ہے۔ جو تنقید کر رہے ہیں ان کے پاس کوئی اخلاقی جواز بھی نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی شادیوں پر بھی نریندرا مودی کی پگڑی پہنتے ہیں، وہ اشرف غنی بھگوڑے کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر سے ملتے ہیں اور ذرا بھی نہیں سوچتے کہ پاکستان دشمنوں کا ساتھی ہے۔
قارئین کرام جب میں یہ تنقید دیکھ رہا ہوں تو مجھے کیلیفورنیا کی وہ بہادر ماں یاد آتی ہے جو اپنے بچے کو بچانے کے لیے نہتی پہاڑی شیر کا مقابلہ کرتی رہی۔ خبر کچھ یوں ہے کہ پہاڑی شیر نے بچے پر حملہ کیا اور اسے گھسیٹ کر لے جانا چاہا تاہم اس موقع پر بچے کی ماں بھاگتی ہوئی آئی اور خالی ہاتھوں شیر کو مارنا شروع کر دیا ایسا مقابلہ کیا ک شیر کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
شیر کے حملے کی وجہ سے پانچ سالہ بچے کے جسم پر چوٹیں آئیں، بچہ اب لاس اینجلس کے ہسپتال میں زیر علاج اور اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اس واقعہ کو پڑھیں سور سبق حاصل کریں کہ کیسے ایک نہتی ماں اپنے بچے کی محبت میں شیر سے ٹکرا گئی اور ہم ہیں کہ دھرتی ماں کو بچانے کے بجائے کو اسے نوچتے رہتے ہیں ان کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔ کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے یا پھر ہم اس نہتی ماں سے بھی گئے گذرے ہیں۔ اگر ہم دھرتی ماں کے دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو دشمنوں کا ساتھ دینے سے تو گریز کر سکتے ہیں۔ فوجی کسی بھی ملک کے پاکستان آئے ہوں ہمیں حالات و واقعات دیکھ کر بات کرنی چاہیے۔ جہاں ہم اس واقعے سے سبق سیکھ سکتے ہیں وہیں دنیا کو بھی اپنی سوچ بدلنی چاہیے پاکستان نے بالخصوص گذشتہ بیس برس میں جس طرح دہشت گردی کے خلاف دنیا کا ساتھ دیا اور اب ایک مرتبہ پھر مشکل وقت میں ناصرف طالبان کے ساتھ بات چیت کا راستہ پیدا کیس بلکہ ضرورت کے وقت ایک مرتبہ پھر دنیا کا ساتھ دے کر خود کو ایک امن پسند ملک ثابت کیا ہے، مہمان نوازی کی ہے، راستہ دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر پاکستان اور کیا کر سکتا ہے۔ دنیا پاکستان سے اور کیا چاہتی ہے۔ ہم نے ستر ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ اور کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنے کے باوجود آج ایک مرتبہ پھر امن اور دوستی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ کاش کہ دنیا پاکستان کی قربانیوں کی قدر کرے۔ کاش کہ برطانیہ کی ریڈ لسٹ مرتب کرنے والوں کو بھی کچھ ندامت محسوس ہو کہ وہ جان بوجھ کر اعدادوشمار کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، سفری پابندیاں عائد کرتے ہیں لیکن پاکستان اس کے باوجود بھی دنیا کا ساتھ دیتا ہے۔ پاکستان کو برکس میں الجھایا جاتا ہے، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں پھنسایا جاتا ہے، سختیاں کی جاتی ہیں، اعدادوشمار اور شاندار بہتری کے باوجود گرے لسٹ سے نہیں نکالا جاتا لیکن اس کے باوجود پاکستان دنیا کو مثبت جواب دیتا ہے کاش کہ دنیا تعصب کے بجائے حقائق پر فیصلے کرے۔
ہماری وزارتِ خارجہ کو ان حالات میں جتنا متحرک اور فعال ہونا چاہیے تھا وہ اتنا متحرک اور موثر کردار ادا نہیں کر سکی، یہ مہمان نوازی، امن دوست فیصلے، یہ مثبت اقدامات سفارتی سطح پر دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے بہتر حکمت عملی کی ضرورت تھی اگر وزارت خارجہ پاکستان کے اس کردار کو زیادہ بہتر انداز میں دنیا کے ڈامنے رکھتی تو کم از کم ہم اپنا پیغام تو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پہنچا سکتے تھے، مہذب انداز میں آئینہ دکھا سکتے تھے کاش کہ ہم ایسا کرتے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ جہاں دشمن بے پناہ شاطر ہے وہیں ہم ضرورت سے زیادہ بھولے، معصوم یا پھر سست ہیں جو اپنی کامیابیوں کو بھی کیش نہیں کروا پاتے۔
میاں شہباز شریف کا مفاہمت یا مزاحمت کے بیانیے سے انحراف اور شفاف الیکشن کا مطالبہ یہ بتاتا ہے کہ نون لیگ میں بیانیے کے حوالے سے ابھی تک مختلف سوچ پائی جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کی واپسی کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں لیکن ابھی تک یہ ناممکن ہے۔ میاں نواز شریف واپس آ کر جیل جانے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے لیکن وہ اپنے لوگوں کو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ پارٹی پالیسی کیا ہے، بیانیہ کیا ہے میاں شہباز شریف کسی اور راستے پر چل رہے ہیں اور میاں نواز شریف اپنے چند ساتھیوں سمیت کوئی اور میوزک چلا رہے ہیں۔ بہرحال دونوں کی مختلف سوچ کی وجہ سے پارٹی میں بے چینی اور پریشانی پائی جاتی ہے کیونکہ ڈگمگاتی نون لیگ کے پاس واضح سوچ، موقف اور بیانیے کی شدید کمی نظر آتی ہے یہی صورتحال رہی تو آنے والے دنوں میں مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔