’’یہ جنگ لمبی چلے گی اور مسئلہ حل ہو گا اس مرتبہ کوئی غلطی نہیں ہوگی اور جیت ہماری ہوگی ‘‘12ستمبر2001 کو جارج بش کے یہ الفاظ دنیا کے کونے کونے میںسنے جارہے تھے ،امریکہ فیصلہ کر چکا تھا کہ افغانستان پر حملہ کرنا ہے ، برطانیہ اس کے ساتھ تھا اور پاکستان کو پیغام دے دیا گیا تھا کہ ہمارے ساتھ ہو جائو یا ہمارے خلاف…دوسری طرف طالبان کے امیر ملا عمر کا پیغام بھی گونج رہا تھاکہ ’’ بش نے ہمیں شکست دینے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ نے ہمارے ساتھ فتح کا وعدہ کیا ہے ، ہم انتظار کریں گے کہ کون سا وعدہ پور ہوگا‘‘۔
بیس سال بعد ریپبلیکن پارٹی کی رکن کانگریس کے یہ الفاظ ’’ بین الا قوامی منظرنامے پر ایک تباہ کن ناکامی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا ئے گا ‘‘بتارہے ہیں کہ کون ساوعدہ پورا ہوا اور کس کو شکست ہوئی ۔افغانستان میں روس کی شکست کے بعد سرد جنگ کا اختتام اس صورت میں ہوا کہ روس کی کئی ریاستوں نے آزادی کا اعلان کر دیا جس سے سویت یونین ٹوٹ گیا اور دنیا میں امریکہ واحد سپر پاور بن کر سامنے آیا ۔ دنیا میں طاقت کا اب ایک ہی مرکز تھا جسے دنیا امریکہ کے نام سے جانتی تھی ۔روس کے خلاف جنگ میں جہاں امریکہ نے اپنے وسائل استعمال کیے وہاں روس کو دریائے آمو پار بھیجنے میں مختلف اسلامی گروپوں اور افغان عوام نے بھی بھرپور جدوجہد کی جس میں بہت سی قربانیاں دی گئیں ۔روس کے شکست کے بعد امریکہ سمیت دیگر اتحادیوں نے افغانستان میں جلتی آگ کو افغانستان اور پاکستان کے لیے چھوڑ دیا ۔اب امریکہ کا اگلا ہدف بھارت کو جنوبی ایشیا اوراسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی بڑی طاقت بنانا تھا ۔ مشرق وسطیٰ میں اسلامی ممالک کی آپس میں فرقہ وارانہ اختلافات نے امریکہ کے اس ہدف کو اور بھی آسان کر دیا تھا لیکن جنوبی ایشیا میں پاکستان بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے کھڑا تھا جس پر مختلف قسم کی پابندیاں عاید کی جانے لگی ۔ یہ وہی دن تھے جب
افغانستان میں مختلف اسلامی گروہ اقتدار کے لیے آپس لڑ رہے تھے ، ہمسایہ ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان اس خانہ جنگی کا سب سے ذیادہ متاثر ہونے والا ملک تھا یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی کہ افغان گروہوں میں کسی طرح سے مصالحت کروا دے ۔انہی دنوں افغان عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف طالبان کا تذکرہ ہونے لگا ،طالبان نے افغانستان میں مختلف شہروں میں قدم جمانے شروع کیے ، 27 ستمبر 1996کو احمد مسعود شاہ نے اپنی فوجیں کابل سے نکالیں تو کابل پر طالبان کا قبضہ ہونے سے امارت اسلامی کا اعلان کر دیا توامریکہ سمیت سارے طاقت ور ممالک ایک دم سے چونک گئے ۔ امارت اسلامی کا قیام دنیا کے لیے قبول کرنا اتنا آسان نہیں تھا ۔یہ وہی وقت تھا جب القاعدہ اپنے پر پرزے نکال رہی تھی ۔ ایک طرف دنیا کے مختلف حصوں میں جاری اسلامی تحریکیں امارت اسلامی کو اپنے لیے کامیابی کی امید سمجھ رہی تھیں وہیں یہ حکومت طالبان کے لیے ایک بھرپور چیلنج بن کر سامنے آئی ۔ ایک طرف خانہ جنگی میں مصروف افغان مزاحمتی گروپ تو دوسری جانب وار لارڈزکا اثرورسوخ جو اپنے اپنے علاقے میں بلا شرکت غیرے حکومت کرتے تھے ۔ طالبان کے بارے میں مثبت اور منفی انداز سے اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ شاید عام قاری کے لیے طالبان کی اصل تاریخ تک پہنچنا مشکل ہو جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان نے دنیا کے اندازوں کو غلط ثابت کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے ۔
قندھار کے ایک چھوٹے سے گائوں سے ابھرنے والی طالبان کی اس تحریک کو دنیا نے صرف چار سال تک برداشت کیا اور انہی چار سالوں کے چند واقعات کو بنیاد بناکر بیس سال تک افغان سرزمین پر قتل و غارت کا کھیل کھیلا جاتا رہا ۔ دنیا کے بڑے ممالک ، بڑے اتحاد جدید اسلحہ و سازوسامان سے لیس ہو کر پہلے سے خانہ جنگی میں مبتلا قوم کو ’’فتح ‘‘کرنے کے جنون میں آگ وبارود کی بارش برساتے رہے۔ دور جدید میں جب دنیا میں پرندوں اور جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں افغان قوم بالعموم اور طالبان بالخصوص انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیے گئے ۔ طالبان پر کئی قسم کے الزامات لگائے گئے ان میں ایک بڑا الزام شرعی قوانین کا نفاذ تھا ۔ اقوام متحدہ کے ادارے یہ تسلیم کر چکے تھے کہ طالبان دور میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوچکا تھا، وارلارڈز کو قانون کے حصار میں لایا جاچکا تھا ، پوست کی کاشت کا خاتمہ ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود شرعی قوانین کا نفاذ ایسا جرم تھا جسے امریکہ معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا ، قتل کے بدلے میں قصاص کا حق، نماز روزے کی سختی ، ناپ تول میں کمی پر فوری طور پر سزائوں کی بدولت جرائم کی شرح ریکارڈ حد تک کم ہو چکی تھی ۔ مختلف قسم کے محصولات کے خاتمہ اور امن و امان کی بہتر صورتحال پر افغان عوام کو سکون کا سانس ملا تھا لیکن خواتین پر پردے کی سختی یورپ و امریکہ کو کسی صورت قبول نہیں تھی ۔بامیان کامجسمہ گرانا ، عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھنا سمیت شاید کئی ایسے واقعات تھے جنہیں طالبان کے خلاف بطور چارج شیٹ پیش کیا جا سکتا ہے ۔ نائن الیون کا واقعہ ہوا تو امریکہ نے اس کا الزام القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں پر عاید کرتے ہوئے انہیں حوالہ کرنے کے لیے کہا جس پر طالبان نے اپنی قبائلی روایات کی وجہ سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تو وہ اسامہ بن لادن کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم براہ راست وہ اپنے مہمان کو امریکہ کے حوالہ نہیں کر سکتے جس پر امریکی صدر نے طالبان کے لیے زمین تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ افغانستان پر حملہ دورجدید کے تمام حملوں سے تباہ کن تھا ایک طرف چالیس سے زائد ممالک اور دوسری طرف چند سال تک اقتدار میں رہنے والے ۔۔۔ مقابلہ ہی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود کس طرح ان کو سر اٹھانے کی سزا د ی گئی ، افغان سرزمین پر امریکی طیارے دندنانے لگے ، طالبان کی قیادت نے پسپائی اختیار کرلی اور جو ان کے حمایتی پیچھے رہ گئے ان کے لیے موت کے بازار سجا دیے گئے ، صلح کے بہانے انہیں کنٹینروں میں بھر کر لیجایا گیا جہاں وہ دم گھٹ کر شہید کر دیے گئے ، جو پکڑے گئے ان کے لیے گوانتاموبے اور بگرام ائیر بیس پر تیار کیے گئے ۔
عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں سنیں تو لوگوں کے جسموں پر کپکپی طاری ہوجائے ، ان کے منہ پر بوریاں لپیٹ کر ان کی سانسوں کو امتحان لیا گیا ، سخت سردی میں ننگے جسم ان کو ٹھنڈے فرش پر ساری ساری رات لٹایا جاتا ، بخار کی کیفیت میں ان پر لاٹھیاں برسائی جاتیں ، انہیں برہنہ کر کے ان پر کتے چھوڑے گئے ، انہیں بجلی کے کرنٹ لگائے گئے ۔یہ تو وہ تھے جو پکڑے گئے ان بیس سالوں میں طالبان کے نام پر جو افغان قوم کے ساتھ ظلم کیا گیا اس کی داستان بھی بہت طویل ہے ۔ افغان قوم کو انصاف کے نام پر جنگ مسلط کرنے والوں نے شادی گھر، ہسپتال ، ایمبولینسز، مدارس ، تعلیمی اداروں تک کو بمباری کا نشانہ بنایا اور ان سب کے بعد ایک ایسی حکومت کو مسلط کردیا جو سرتا پائوں کرپشن میں لتھڑی ہوئی تھی ۔چالیس سے زائد ممالک کی فورسز امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے میں ناکام رہیں ، وارلارڈز نے پھر سے سر اٹھا لیا ، محصولات میں اضافہ ہو گیا اور چند علاقوں کے علاوہ ہر جگہ جرائم پیشہ گروہ سرگرم ہوگئے ، پوست کی کاشت میں بھی اضافہ ہو گیا ۔اسی دوران ایک نئی تنظیم داعش کو افغانستان لا کر بسایا گیا جس کا ایجنڈہ اسلام کا نام لے کر مسلمانوں کو قتل کرنا اور اسلام کوبدنام کرنا تھا اب کارروائی داعش کرتی اور اسے طالبان کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ۔ غرض یہ کہ ایک طرف طالبان پر دنیا کا بدترین ظلم کیا گیا اور دوسری طرف انہیں دنیا سامنے ظالم گروہ بنا کر پیش کیا گیا لیکن طالبان نے ایک طرف اپنی عسکری جدوجہد جاری رکھی تو دوسری طرف ان سارے الزامات کا مقابلہ کیا اور نتیجہ آج دنیا کے سامنے ہے ۔ طالبان کے اولین سربراہ ملا عمر اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کے الفاظ سچے ثابت ہو رہے ہیں ۔طالبان کے سامنے ابھی بہت سے مسائل ہیں وہ کیا کرتے ہیں اور کس طرح سے اپنے پر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرتے ہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن ان کی جہد مسلسل نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی قوتیں ان کے جھکانے میں ناکام رہی ہیں ۔