ہمارے ہاں سیاست دان اور گلی محلے میں ملکی اور بین الاقوامی حالات پر بے لاگ تبصرہ کرنے والے اپنی گفتگو میں اِن باتوں کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ (اُن کے مطابق ) عوا م مہنگائی سے اس قدر تنگ آ گئے ہیں کہ وہ حکومتِ وقت کی اینٹ سے اینٹ بجانے ہی والے ہیں اور دوسرے یہ کہ ملک کی موجودہ صورتِ حال کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے ۔ بعض سیاست دان اور محلے کے جگت تایا ، پھو پھا حضرات بے باک تبصروں میں انقلاب کی بھی بات کرتے ہیں حالانکہ انقلابات خونیں ہوتے ہیں خواہ کہیں کے بھی ہوں !! اِن گلی محلوں کے مبصروں کے ساتھ ساتھ قومی سطح کے سیاست دان بھی جوشِ خطابت میںکبھی کبھی ’’ انقلابِ فرانس ‘‘ کا نام لے لیتے ہیں۔ حالاں کہ انقلابِ فرانس میں جو کام سب سے پہلے کیا گیا تھا وہ اُس وقت کے بادشاہ ، ملکہ، اشرافیہ اور ملک چلانے والے تمام سیاست دانوں کے’’ سر قلم ‘‘کرنے کا تھا۔ کیا ہمارے ہاں کے سیاست دان اپنے سروں کی فصل کٹوانا چاہتے ہیں؟ خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں… للہ بات کرنے سے پہلے سوچ تو لیں کہ کہہ کیا رہے ہیں !! بھٹو دور میں پنجاب کے ایک سادا مزاج وزیرِ جیل خانہ جات مرحوم حاکمین خان عوامی مجمع میں جوشِ خطابت میں کہہ گئے ’’ میں عوام کی خدمت کی خاطر پورے صوبے کو جیلوں سے بھر دوں گا ‘‘۔بعد میں انہیں بتلایا گیا کہ وہ کیا کہہ گئے۔ بہرحال انقلاب کے بعد اس قبیل کے لوگ اپنی دوسری من پسند بات ’’ پنڈورا باکس ‘‘ کو کھول دینے کی کرتے ہیں۔آئیے ماضی قریب و حال کی چند چیختی چلّاتی سرخیاں دیکھتے ہیںـ: ’’ پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر کسے فائدہ پہنچایا گیا ؟ نیا پنڈورا باکس کھُل گیا ــ ہمیں تما م عہدوں کی پیشکش ہوئی لیکن ہم نے انہیں حقیر سمجھا … مولانا فضل الرحمن نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ‘‘۔ ’’ چینی بحران رپورٹ، شیخ رشید نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ‘‘۔ رانا ثناء اللہ نے چئیرمین نیب کی ویڈیو لیک پر نیا پنڈورا باکس کھول د یا ’’ کرکٹ ورلڈ کپ 2011 کا فائنل بھی فِکسڈ تھا۔ایک نیا پنڈورا باکس کھُل گیا ‘‘ عید الفطر 24 مئی کو ہوگی۔ رویتِ ہلال کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں ۔فواد چوہدری نے پنڈورا باکس کھول دیا ‘‘ مجھے کِس نے نکالا ؟ …سابق مشیرِ اطلاعات ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ‘‘۔ ’’ ترک ڈرامے ارطغرل پر حکومتی شخصیات بھی تقسیم … نیا پنڈورا باکس کھُل گیا ’’ آرام سے بات کریں پنڈورا باکس کھُلا تو سب کچھ ختم ہو جائے گا … رحمن ملک ‘‘۔ فریحہ فاطمہ لکھتی ہیں : ’’ مشتری ہوشیار باش: وائرس اور بیماریوں کا پنڈورا باکس کھُلنے کو ہے ’’ پاکستان کے پُرانے کرکٹ کے کھلاڑیوں نے لاک ڈائون میں وقت گزاری کے لئے ایک دوسرے پر الزامات کا پنڈورا باکس کھول دیا ‘‘۔
ایسی باتیں سُن سُن اور پڑھ پڑھ کرکئی ایک سوالات ذہن میں آتے ہیں جیسے : یہ پنڈورا باکس آخر ہے کیا ؟ جس کو ہر کس و ناکس کھولنے کی دھمکی دیتا رہتا ہے؟ پھر یہ کہ آخر اس میں ہے کیا جِس سے ایک عالم کو ڈرایا جا رہا ہے۔پھر یہ کہ جِس کو دیکھیں، جِس زمانے میں دیکھیں وہ پنڈورا باکس کو کھو لنے کی دھمکی دے کر حکومتِ وقت یا مخالف فریق کو بلیک میل کیوں کرتا ہے۔کیا کبھی میں نے اور آپ نے یہ سُنا یا پڑھا کہ کوئی سیاست دان یہ کہہ رہا ہو : ’’ بہت ہو گیا … اب ہم یہ پنڈورا باکس بند کر کے اس کا قصہ ہی تمام کر رہے ہیں ؟ ‘‘۔ یہ سب دیکھتے ہوئے میں نے تحقیق کی اور جیسے ہی گوگل پر پنڈورا باکس لکھا فوراََ ہی ایک یونانی دیومالائی کہانی سامنے آ گئی۔ کہانی کے مطابق یونان کے دیوتا ئوں میں سے ایک نے پہلی مرتبہ کسی عورت کا سانچہ گیلی مٹی سے بنایا۔ ایک اور دیوتا نے اس میں روح پھونک دی۔ ایک تیسرے دیوتا نے اسے خوبصورتی عطا کی وغیرہ وغیرہ اور انہوں نے اس عورت کا نام پنڈورا رکھا۔دیوتائوں کے بڑے دیوتا کو یہ سب پسند نہ آیا اور ایک چوتھے دیوتا کے ہاتھ پنڈورا بی بی کو ایک ایسا مرتبان بھیجا جس میں ( کورونا سمیت ) دنیا بھر کی تمام وبائیں بند تھیں ۔ لیکن مکھی کی صورت میں اُمید کو بھی بند کر دیا۔چوتھے دیوتا نے پنڈورا کو منع کیا کہ یہ مرتبان نہ کھولنا لیکن اُس نے مارے تجسس اُسے کھُول دیا۔اور پھر جو ہونا تھا وہ ہوا بلکہ اب تک ہو رہا ہے۔یہ تو تھی کہانی !! اب اس پنڈورا کا مرتبان، باکس میں کیسے بدلا ؟ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ کہانی اٹھارویں صدی عیسوی میں فرانس کے تھیئٹر میں اسٹیج ہوئی۔اس ڈرامے میں پنڈورا کو ایک باکس پیش کیا گیا تھا جو اس نے کھول دیا۔یہ ڈرامہ بہت مقبول ہوا۔ فرانس سے یہ برطانیہ پہنچ گیا اور ’’ پنڈورا باکس ‘‘ اتنا مقبول ہوا کہ پنڈورا باکس کا نام باقی رہ گیا اور خود پنڈورا کے ساتھ کیا ہوا ؟ کچھ علم نہیں ۔ ویسے راولپنڈی کے ایک علاقے کا نام بھی’’ پنڈورا ‘‘ ہے۔ کیا پتہ وہ یہاں آ بسی ہو۔ بہرحال اب یہ نام پوری دنیا میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔مزے کی بات کہ یہ معلومات لیتے ہوئے میرے ذہن میں کچھ شعر گردش کرنے لگے۔ تھوڑا سا ذہن پر زور دیا تو پوری نظم ہی یاد آ گئی جسے جگجیت سنگھ نے گایا تھا۔ بے اختیار سر کو دھنا !! واہ … نظم ہے یا پنڈورا باکس کی وضاحت !! کفیل آزر امروہوی کی اس نظم کو آپ بھی پڑھئے اور سر دھنئے:
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بے و جہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو
انگلیاں اُٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف
اِک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف
چوڑیوں پر بھی کئی طنز کئے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ فِقرے بھی کسے جائیں گے
لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں میر ا ذکر بھی لے آئیں گے
اُن کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تاثر سے سمجھ جائیں گے
چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا اِن سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
Aug 31, 2021