بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی

امریکہ نے بیس سال میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کارپٹ جنگ کی گئی۔ پورے ملک کو تورا بورا بنا دیا۔ طالبان امریکہ کے جدید ترین بمبار طیاروں کا مقابلہ نہ کر سکے، اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر انہوں نے گوریلا وار شروع کر دی۔ طالبان کے پاس امریکی جہازوں کی بمباری کا توڑ نہیں تھا تو امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے پاس طالبان کی گوریلا حکمت عملی کا مناسب جواب نہیں تھا۔ امریکہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان پر اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ آور ہوا تھا۔ اصولی طور پر امریکہ کو اسامہ کی ہلاکت کے بعد ہی انخلا کا فیصلہ کر لینا چاہیے تھا مگر اس نے دس سال مزید افغانوں کا خون بہایا اور اپنے بھی فوجی مروائے۔ پاکستان بدترین دہشتگردی کا شکار بھی امریکہ کا ساتھ دینے اور اور اسکی پالیسیوں کے باعث ہی ہوا۔ بلاشبہ پاکستان نے اپنی استعداد سے بڑھ کر امریکہ کا ساتھ دیا اور اس کا کوئی معاوضہ بھی طلب نہیں کیا۔ امریکہ کی طرف سے طوطا چشمی سے کام لیا گیا۔ پاکستان کی قربانیوں کے صلے میں افغانستان تاراج ہوا۔ اس پر پاکستان کا احسان مند ہونے کے بجائے امریکہ بھارت کے ایما پر پاکستان کیخلاف سرگرم نظر آیا۔بھارت پر نوازشات کی گئیں۔ اسے افغانستان میں اسکی حیثیت سے بڑھ کر حصہ اور کردار دیا۔ بھارت کی طرف سے افغان فوجوں کی تربیت کی گئی۔بھارت نے افغان سرزمین اور افغان فوج کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کیلئے استعمال کیا۔ عمران خان حکومت کے تین سال مکمل ہو گئے۔ میری نظر میں تین سال میں حکومت نے دو ناقابلِ یقین کامیابیاںحاصل کیں۔ جو دہائیوں یاد رہیں گی۔ ایک تو بھارت کے دو جہاز گرائے گئے، ایک پائلٹ کو قیدی بنایا گیا دوسرے افغانستان مسئلے کا پُرامن حل۔ اب امریکی انخلا پاکستان ہی کی کوشش سے آخری مرحلے میں ہے۔ کل آخری امریکی بھی افغانستان سے نکل جائیگا۔ خونریزی کے بڑے خدشات تھے جو طالبان اور امریکہ کے مابین طے پانے والے معاہدے کے باعث دور ہو گئے۔ پاکستان کی کامیابیوں میں بھارت کا افغانستان سے دُم دبا کر بھاگ جانا بھی ہے۔ امریکہ20سال کا حساب تو کر رہا ہوگا اس نے کیا کھویا کیا پایا۔ اب جب افغانستان سے جا رہا ہے تو اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ چھوڑ کر جا رہا ہے۔ امریکہ سینیٹر کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں 80ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر جا رہا ہے۔ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی نیوکلیئر طاقت ہے۔ اسکے پاس 48جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ امریکی افغانستان میں ایک سو ہیلی کاپٹر چھوڑ گئے، دو سو فائٹر طیارے بھی یہیں رہ گئے۔ یہ ہیلی کاپٹر اور طیارے طالبان کیلئے بسوں ویگنوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ انکے پاس اسکے پائلٹ ہیں نہ ٹیکنیشن اور نہ انجینئر ہیں۔ پاکستان ان کو طالبان کیلئے ضرور کارآمد بنا سکتا ہے۔امریکہ نے افغانستان میں پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ امریکی اعدادوشمار کے مطابق افغانستان میں تین ٹریلین ڈالر کے اخراجات ہیں۔ ایک ٹریلین میں ایک ہزار ارب ہوتے ہیں۔ امریکہ یہ رقم اپنے شہریوں پر خرچ کرتا تو 34کروڑ میں سے ہر امریکی لکھ ڈالر پتی ہوتا۔ اتنا سرمایہ بہا دینے سے آج لاکھوں امریکی قلاش ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے ہاتھ ایک بے سود مہم سے کیا آیا۔اس کا امریکیوں نے حساب تو کیا ہوگا۔امریکہ افغانستان میں بہت کچھ چھوڑ کر جا رہا ہے۔ اسکے سفارتخانے سے کئی روز دھواں اٹھتا رہا۔ وہاں ضروری دستاویزات اور حساس نوعیت کا سامان جلایا جاتا رہا۔ دو روز قبل کابل ایئر پورٹ کے اندر سی آئی اے کے دفتر پر امریکی طیاروں نے شدید بمباری کرکے دفتر کو تورا بورا بنا دیا۔ امریکہ افغانستان میں اتنا کچھ لے کر آیا، اسے اگر وہ جلانا چاہے تو اس کیلئے بھی کئی سال درکار ہوں گے۔ اپنے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو کیا وہ طالبان کے استعمال کیلئے چھوڑ دیگا؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ یہ وہ گانٹھیں ہیں جو امریکہ کو اب اپنے منہ سے کھولنی پڑ رہی ہیں۔ قارئین!جب میں آج کالم لکھنے کیلئے بیٹھا ہوں تو میرے ذہن میں یہ سوال آ رہا تھا کہ میرے اس کالم کا عنوان کیا ہوگا؟تو یکدم مجھے خیال آیا ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘طالبان جنگجوئوں کے ہاتھ لگنے والے اسلحہ کی صورت میں مالِ غنیمت کی مجموعیت مالیت اگر 80ارب ڈالر نہیں بھی تو تھوڑے کم ہونگے کیونکہ افغانستان کو دی جانیوالی تین ٹریلین امداد ،اسی طرح امریکی سرکاری افسران نے لوٹی کھسوٹی ہے۔معزز قارئین!مگر امریکہ اور اس کے اتحادی اتنے بھولے بھی نہیں کہ وہ کھربوں کا اسلحہ جنگجوطالبان کیلئے یونہی چھوڑ کر بھاگ جائیں۔یقینا امریکہ اور اتحادیوں کی یہ خواہش ہے کہ طالبان کے ہاتھ لگنے والا اسلحہ مقامی اور علاقائی خانہ جنگی کیلئے استعمال ہو۔اب طالبان کی قیادت اور پاکستان میں بیٹھے دانشوروں اور ارسطوئوںکو یہ سوچنا ہوگا کہ اس مسئلے سے کیسے نبردآزما ہوا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن