سوچنے کی بات

قرآن پاک کی سورة الاعراف کی آیت نمبر 179 کا ترجمہ کچھ ہوں ہے، ’اور ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے جن اور آدمی پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں، اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں، اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں، وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی گمراہی میں زیادہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں۔‘ اس میں کوئی شک نہیں اور غالب امکان بھی یہی ہے کہ اس آیت سے متاثر ہو کر ہی اہل دانش نے ایک ایسا قول رقم کیا ہے جسے یہ خاکسار حرف بہ حرف یہاں منقول کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ قول کچھ یوں ہے، ’احمق سے الجھنے اور اس کی بات کا جواب دینے کا مطلب حماقت اور جہالت کو مزید فروغ دینا ہے۔‘
دیکھا جائے تو اوپر بیان کردہ سچائی اب صرف کتابوں میں لکھی تحریر تک ہی محدود نہیں رہ گئی بلکہ صاحب بصیرت لوگوں کی بیان کردہ اس حقیقت کا آج کل کے دور میں اگر آپ نے عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو سوشل میڈیا کے جتنے فورم ہیں، چاہے وہ فیس بک ہو یا ٹویٹر، ایک دفعہ ان کو کھول لیں آپ کو ہر جگہ شخصیت پرستی کا ایک ایسا طوفان نظر آئے گا جہاں ایک مخصوص طبقہ اچھائی اور برائی کے درمیان تفریق میں کسی حجت بالغہ کے بغیر کسی ایک فریق کے گن اس حد تک گاتے ( جسے عرف عام میں اندھی تقلید کا نام بھی دیا جاتا ہے) اور اسے اس مقام پر فائز کرتے دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ یہ ڈر لگنا شروع ہو جاتا ہے کہ کہیں وہ اس حد کو ہی کراس نہ کر جائیں جہاں مذہب نے ایک قدغن، ایک سرخ لکیر لگائی ہوئی ہے جبکہ اس کے برعکس تنقید کے زمرے میں دوسری طرف تمام حجت الزامی کا سہارا لیتے وہ ایسا ایسا اول فول بک رہے ہوتے ہیں جہاں پر تہذیب تو ایک طرف اخلاقیات بھی شرم سے اپنا منہ چھپائے نظر آتی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ آج کل اس مرض کا شکار آپ کو صرف وہ طبقہ ہی نہیں ملے گا جس پر آپ ان پڑھ یا جاہل ہونے کا لیبل لگا سکتے ہیں بلکہ اس میں آج کل غالب اکثریت آپ کو اس طبقہ کی بھی ملے گی جو اپنا شمار خاصے پڑھے لکھے، ماڈرن اور ایلیٹ کلاس میں کرتا ہے اور اوپر سے اسے حالات کے ستم کا نام دیں یا وقت کا جبر کہ جب ایسے دوستوں سے ان کے موقف کی سپورٹ میں کسی ٹھوس دلیل، کسی واضح ثبوت یا حتمی شہادت کا کہا جاتا ہے تو جواب میں جو کچھ سننے کو ملتا ہے اس کے بعد پتا چلتا ہے کہ صاحب بصیرت لوگوں نے یہ بلاوجہ نہیں کہا تھا کہ ’احمق سے الجھنے اور اس کی بات کا جواب دینے کا مطلب حماقت اور جہالت کو مزید فروغ دینا ہے‘۔ سو اس جب کبھی کیا آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو بہتر یہی رہے گا کہ بحث میں پڑنے کی بجائے خاموشی اور صرف نظر سے کام لیں۔
اہل سیاست کی نظر میں بظاہر یہ رجحان بڑا حوصلہ افزا گنا جا رہا ہے کیونکہ اس ماحول میں ان کا چورن اچھا خاصا بک رہا ہے لیکن اہل فکر اس کو ایسے مرض سے تشبیہ دے رہے ہیں جو کینسر کی طرح پورے ملک کے وجود کو کھا جائے گا۔ گہرائی میں دیکھا جائے تو اہلِ فکر کی یہ تشویش بلا جواز نہیں جس مائنڈ سیٹ کا اس کالم میں رونا رویا جا رہا ہے۔ وہ ہمارے اس سماج میں طبقاتی تقسیم کا سبب بن رہا ہے۔ بطور طالبعلم میرا مشاہدہ تو مجھے اس بات کی چنوتی دیتا ہے کہ جن معاشروں میں طبقاتی تفریق اس حد تک زور پکڑ لے کہ فاصلے ایک خلیج سے بڑھتے بڑھتے سمندر تک وسعت اختیار کر لیں تو وہاں پھر خانہ جنگی کی فضا جنم لیتی ہے۔ طبقاتی تفریق صرف معاشی بنیادوں پر ہی جنم نہیں لیتی بلکہ نظریاتی بنیادیں بھی اکثر و بیشتر اس میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہو رہی کہ میری تیسری آنکھ اس وقت طبقاتی تفریق صرف معاشی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں کے علاوہ ان سو کالڈ نظریاتی بنیادوں پر بھی دیکھ رہی ہے جن کا دراصل کسی نظریہ سے نہیں بلکہ صرف اندھی تقلید اور بغض کے ستونوں کے تعلق ہے، اور اگر اس گرداب سے نکلنے کا ہم نے کوئی راستہ نہ نکالا تو خدا جانے یہ ہمیں کس عذاب میں مبتلا کر دے۔
وقت کی ستم ظریفی کہوں یا اپنے اندر کی غلاظت کہ پورے ملک کا تقریباً 80 سے 90 فیصد حصہ پانی میں ڈوب چکا، سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھیں لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکیں، لاکھوں مویشی پانی میں بہہ چکے، لاکھوں گھر دریا برد ہو چکے، سینکڑوں نہیں ہزاروں انسانی جانیں ان پانیوں کی نذر ہو چکیں، ہم ان کی امداد کا سوچنے کی بجائے اس بحث میں لگے ہیں کہ ہمارا لیڈر پانی میں چل کر لوگوں کے پاس پہنچ رہا ہے، تمہارا لیڈر ہیلی کاپٹر پر جا رہا ہے۔ ہمارے لیڈر نے شلوار قمیض پہنی ہوئی ہے، تمہارے لیڈر نے پینٹ شرٹ۔ ہمارے لیڈر نے پشاوری چپل پہنی ہوئی ہے، تمہارے لیڈر نے لانگ بوٹ۔ وہ قومی اور ریاستی ادارے جو اس وقت سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنے ہم وطنوں کی داد رسی اور مدد میں جتے ہوئے ہیں ہم بجائے اسکے کہ انکی ان کاوشوں کو تحسین کی نظروں سے دیکھیں ہم انھیں بھی مشکوک بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب یہ ساری بحث اور نفرت بھرے متشدد رویے دیکھتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے کہ کیا ان لمحات اور ایسے رویوں کے لیے ہی میرے قائد نے علیحدہ وطن کے لیے جد و جہد کی تھی۔ بس یہی ایک سوچنے کی بات ہے!

ای پیپر دی نیشن