اسلام آباد(آئی این پی )پاکستان میں افراط زر 14سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا،گزشتہ ہفتے مزید 3.35فیصد اضافہ،عوام کی قوت خرید کم،سوچ صرف گزر بسر تک محدود،مہنگائی عروج پر،رہی سہی کسر سیلاب نے نکال دی،بلند شرح سو د سے کاروبار ٹھپ۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق بلند شرح سود چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جس سے ان کے کاروبار کو بڑھانے کی صلاحیت اور منافع کم ہوتا ہے جس کا نتیجہ بالآخر بے روزگاری کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد کے سابق ریسرچ اکانومسٹ ایاز احمدنے ویلتھ پاک کو بتایا کہ اعلی شرح سود سے کمرشل سیکٹر میں بینک کریڈٹ کم ہوتا ہے اور قرض لینے والے کے لیے سرمائے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرموں کو اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لئے زیادہ شرح سود کی وجہ سے قرضوں پر سود کی ادائیگی زیادہ مہنگی اورمشکل ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں ایس ایم ایز قرضے حاصل کرنے سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے چھوٹے کاروباروں کی سرمایہ کاری بھی کم ہو جاتی ہے جس سے ان کے لیے منافع بخش رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایاز احمدنے کہا کہ اعلی شرح سود صارفین کی اشیا اور خدمات میں فرموں کی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے بالآخر روزگار کم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن موجودہ مہنگائی ڈیمانڈ کی طرف سے نہیں بلکہ یہ سپلائی سائیڈ کا رجحان ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل اور اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور مال بردار کرائے مہنگائی کی موجودہ لہر کی بڑی وجوہات ہیں۔
ایاز نے مزید وضاحت کی کہ چونکہ پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر میں کمی ہوئی ہے اس لیے درآمد کنندگان کو اشیا کی خریداری پر زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں اشیا کی قیمتیں بلند ہوتی ہیں۔ اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی رانا ٹریڈنگ کارپوریشن کے مالک رانا محمد ظہیر نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ اعلی شرح سود صارفین کے اخراجات کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے صارفین گاڑیاں خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔رانا ظہیر نے کہا کہ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ان کی کمپنی کی فروخت میں کمی آئی ہے جس سے ان کے منافع پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر صارفین بینکوں سے قرض لے کر ان کے شوروم سے کار خریدتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی اور کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے کاروں اور موٹر سائیکلوں کی خریداری صارفین کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ فیلو ساجد امین جاوید نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 15 فیصد پر برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر کی نقل و حرکت اور ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے پر قیاس آرائی پر مبنی دباو کو پالیسی ریٹ پر اثر انداز نہیںہونے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو بڑھانے کے بجائے برقرار رکھنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد شکیل منیر کے مطابق شرح سود میں اضافے سے کاروبار کی ترقی متاثر ہوگی۔ حکومت کی جانب سے تجارت اور برآمدات کو فروغ دینے کی کوششوں کے باوجود بلند شرح سود کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر موثر طریقے سے مقابلہ نہیں کر سکا۔ 30 جون کو ختم ہونے والے پچھلے مالی سال میں 17.4 ارب ڈالر کے دوسرے سب سے زیادہ کرنٹ اکاونٹ خسارے کے درمیان معیشت بہت زیادہ سکڑ گئی۔ تیس جون2022کو ہفتہ وار افراط زر جمعہ کو ختم ہونے والے ہفتے میں 42 فیصد سے زیادہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور بینچ مارک کنزیومر پرائس انڈیکس کی افراط زر جولائی میں 25 فیصد کے قریب 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے اور افراط زر مسلسل بڑھ رہا ہے اورحساس قیمت کا اشاریہ 18 اگست کو ختم ہونے والے ہفتے میں 3.35 فیصد کا اضافہ دکھا رہا ہے۔