محمد رمضان چشتی
اس وقت سیلاب اور بارشوں سے ملک میں قیامت برپا ہے ہر کسی کی زبان پر ہے کہ ’’ہم نے ایسا تباہ کن سیلاب نہیں دیکھا‘‘ ہنستے بستے گھر، بستیاں، گاؤں، دیہات، شہر پل بھر میں اُجڑ گئے اور سیلاب قیمتی جانیں اور سامان سب کچھ بہا کر لے گیا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے مطابق سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ دس لاکھ گھر تباہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس سیلاب کو ’’طوفانِ نوح‘‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے ظلم، بداعمالیوں، لوٹ مار اور سود خوری اور اللہ تعالیٰ سے جنگ کا بھی نتیجہ ہے۔ اس سیلاب میں جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔ بستیوں کی بستیاں تاراج ہو گئیں، سینکڑوں قیمتی جانیں لقمۂ اجل جبکہ ہزاروں زخمی طبی امداد کے بغیر کھلے آسمان تلے پڑے چیخ و پکار کر رہے ہیں ان کا کوئی پُرسان حال نہیں۔
متاثرہ صوبوں میں جانور سب سے بڑا ذریعہ روزگار تھے اور سیلاب کے نتیجہ میں بلوچستان اور سندھ میں دس لاکھ سے زائد جانوروں کے دریاؤں میں بہہ جانے کی اطلاعات ہیں۔ سیلابی گزر گاہوں اور راستوں اور رکاوٹوں پر جگہ جگہ مردہ جانور پڑے سڑ رہے ہیں۔ تعفن اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ سیلاب زدگان نے بھی مردہ جانوروں کو دور نزدیک پھینک کر جان چھڑا لی ہے جس کی وجہ سے امراض میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مردہ جانوروں کو ٹھکانے لگانا بھی بڑا مسئلہ اور کڑا امتحان ہے۔ متاثرہ علاقوں میں غذا کی شدیت قلت پیدا ہو گئی ہے اب وہاں گوشت اور دودھ کہاں سے آئے گا؟ جبکہ جن کے جانور بچ گئے ہیں ان کے لئے چارہ موجود نہیں وہ چارہ کہاں سے لائیں گے جبکہ انہی جانوروں کو متاثرہ کہہ کر ان کا دودھ اور گوشت لینے سے بھی انکار کیا جا رہا ہے۔
اس وقت سیلاب زدگان کی جان بچانا اوّلین فریضہ ہے انہیں اس وقت خیموں، ترپالوں، مچھردانیوں، پینے کے صاف پانی، کمبل، کپڑوں، ضروری برتنوں کھانے پینے کی اشیا بچوں کے لئے دودھ کے پیکٹوں، ادویات، کاٹن سپرٹ، مرہم پٹی، بخار، پیچش، الرجی، قے اور دیگر وبائی امراض کی ضروری ادویات کی فوری اور اشد ضرورت ہے جو انہیں کسی نا کسی ذریعہ سے پہنچانی چاہئے۔ راقم بھی اس کارخیر میں حصہ کے لئے مولانا سعید خان صافی کے ہمراہ راجن پور وغیرہ جا چکے ہیںجبکہ رحیم یار خان، تونسہ شریف میں فلٹر پلانٹس سے صاف پانی کے سینکڑوں گیلن اور سینکڑوں خیمے بھی بھیجے ہیں ،اس کے باوجود سیلاب زدگان کو اس مشکل کی گھڑی میں لاکھوں خیموں کی فوری ضرورت ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہم نے جو خیمہ چند یوم قبل سات ہزار روپے میں خریدا تھا وہی چند دن بعد نو سے دس ہزار کا ہو گیا۔ پیاز چار سو اور ٹماٹر تین سو روپے کا ہوگیا۔ یہ ہم مسلمانوں کا حال ہے جو اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی تکلیف میں ان کی مدد کی بجائے ان کیلئے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں جنہیں ہم غیر مسلم کہتے ہیں وہ تہواروں اور مصیبت کے دنوں میں تمام ضروری اشیاء کی قیمتیں بے حد کم کر دیتے ہیں جبکہ وہاں کی رفاہی تنظیمیں وہی اشیاء ضرورت مندوں میں مفت تقسیم کرتی اور نام و نمود کی نمائش بھی نہیں کرتیں۔ وہاں مصیبت میں مبتلا جانوروں تک کو بچا لیا جاتا ہے یہاں مدد کیلئے گھنٹوں پکارنے والے پانچ افراد پانی کی بے رحم لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں…!!! کیا ہمارے پاس ایک بھی ہیلی کاپٹر نہیں تھا۔ ہمارے سابقہ وزیراعظم عمران خان بنی گالہ سے ایوان وزیراعظم روزانہ ہیلی کاپٹر پر تشریف لاتے تھے۔
جاپان میں روزانہ زلزلہ آتا ہے وہاں تو وہ کسی سے مدد طلب نہیں کرتے بلکہ حکومت ہی ان کی مدد اور بحالی کے لئے اقدامات کرتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کو آپس میں لڑائی جھگڑے سے ہی فرصت نہیں۔راجن پور کے سیلاب زدگان کی حالت ناگفتہ بہ تھی، لگتا تھا کہ ہم نجانے کتنے پسماندہ علاقے میں آ گئے ہیں۔ سیلاب نے ان کے چہروں سے زندگی کی رونق چھین لی تھی، گندے، پھٹے لباس، دھنسی آنکھیں، امداد کیلئے لپکتے ہاتھ انکی بے بسی اور لاچارگی کی تصویر تھے۔ ہمارے دیگر دوستوں میں آفتاب، دانش، ٹھیکیدار نصیرالدین، سید حبیب اشرف، مس عائشہ، ممتاز، محمودہ بھی لاڑکانہ اور متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ سوات میں بھی سعید خان صافی، حمید اللہ، عطااللہ کو اپنے وفد کے ساتھ سوات روانہ کر رہے ہیں جو سیلاب زدگان کی ہرممکن مدد کریں گے۔
ہمارے قوم کے ’’خدمت گار‘‘ اربوں روپیہ اپنے جلسوں، جلوسوں، ریلیوں، اور اپنی تشہیر کیلئے اُڑا دیتے ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں غریب عوام کو تڑپتا، بلکتا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ جتنی مرضی لوٹ مار کر لیں ان پر تو کوئی خدا کا عذاب نازل نہیں ہوتا۔ ملک جتنا مقروض ہو جائے عوام جتنی مہنگائی کی دلدل میں پھنستی چلی جائے ان کی شاہ خرچیوں، سہولیات، لوٹ مار اور کرپشن میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اگر جائزہ لیں کہ 75 سال میں ہم نے کتنے ڈیم بنائے جبکہ سارا ملک مقروض ہو گیا۔ بھارت نے ہمارے بھی دریاؤں پر درجنوں ڈیم بنا کر پانی اپنی ضروریات کے لئے ذخیرہ اور اپنے علاقوں کو زرخیز و شاداب کر لیا جبکہ ہمیں بنجر بنا ڈ الا اور بارشوں اور سیلاب کے دنوں میں فالتو پانی انہی دریاؤں میں چھوڑ کر ہرسال ہمیں ڈبو دیتا ہے جبکہ ہمارا پانی نقصان پہنچاتا ہوا بحیرہ عرب میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اور ہم ہر طریقہ سے برباد ہو جاتے ہیں جبکہ بھارت نے ملک میں 270 سے زائد ڈیم بنائے ہیں۔ اس تمام کوتاہی کے ذمہ دار ہمارے 75 سال میں برسراقتدار آنے والے حکمران اور ذمہ دار ادارے ہیں جنہوں نے مستقبل کی کوئی پلاننگ اور عوام کی مستقل بہبود کی کوئی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد نہیں کیا جس کا نتیجہ ہر ایسے قیامت خیز طوفان کی شکل میں بے بس و مجبور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ڈیم کے نام پر چندہ جمع کرنے والے ’’باباجی‘‘ بھی کہاں روپوش ہو گئے جو کہتے تھے کہ ’’میں جوگر پہن کر ڈیموں پر پہرہ دیا کروں گا‘‘ ان کا حساب کون دے گا؟؟
اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوبصورت اور معدنی دولت سے مالامال ملک اور چاروں خوبصورت موسم عطا کیے جن سے ہم استفادہ نہ اٹھا سکے۔ جو ملک بجلی، گیس، پانی سے محروم ہو وہ کیا ترقی کرے گا اور عوام کو کیا سہولیات فراہم کرے گا؟ جس ملک میں حرام کا راج اور بازار گرم ہو وہ جنت کے طلب گار دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کہتے ہیں کہ ’’ایک شخص نے پانچ کروڑ رویے دیئے نام نہیں بتایا۔ ہمارے وزیروں، مشیروں نے کیا دیا وہ بھی قوم کو بتا دیں۔ضرورت اس امر ی ہے کہ جن کسانوں نے زمینوں پر بینکوں سے قرضے لیے ہیں ان کے قرضے معاف کر دیئے جائیںاور حکمران اپنے خرچے اور مراعات ختم کریں۔
این جی اوز بھی میدان میں آگئی ہیں چند افراد مل کر گھروں گلی محلوں اور پوش علاقوں میں ڈور بیل بجا کر کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم سیلاب زدگان کی ’’مدد‘‘ کیلئے آئے ہیں جو حسب توفیق ہو آپ ہمیں چندہ دیں۔‘‘ ایسے ابن الوقت اور مفاد پرستوں سے ہوشیار رہنا چاہئے، ان پر پابندی بھی لگنی چاہئے۔ ہمارے کئی حکومتی سربراہ وفود کے ہمراہ بیرونی دوروں میں مصروف ہیں کسی کی بیگم اور 25 رکنی وفد بھی ہمراہ ہے۔ایک المناک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ہمیں من حیث القوم اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا۔
٭٭٭٭