ندیم بسرا
نگران حکومت کے آنے کے باوجود مسائل کم نہیں ہوئے ۔ ملک میںپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے ،مہنگائی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوںپر صارفین کے ملک گیر احتجاج سمیت روپے کی قدر میں مسلسل کمی ڈالر کی اڑان اور نظر نہ آنے والے مسائل کا غلبہ ہے۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتیںالیکشن کے نام پر خاموش ہیں چند ایک جماعتیں الیکشن پر بیانات دے رہی ہیں مگر ایک جماعت کے سر پر پابندی کے خطرات منڈلارہے ہیں اس لئے اس کی کہیں شنوائی نہیں ہورہی۔ عوام نے سابقہ حکومت کے جانے کے بعد نگران حکومت سے اتنی توقعات لگالیں تھیں جس سے یہ لگ رہا تھا کہ کہ ایک ہی دن میں نگران حکومت مطلوبہ نتائج فراہم کردے گی۔بے چاری عوام گڈ گورننس کی درستگی بھی انہیں سے چاہتے تھے۔اپنے دل میںاتنی امیدیں ان سے وابستہ کئے ہوئے تھے جو ایک منتخب حکومت سے بھی زیادہ ہیں۔ہوا کچھ یوں کہ ڈالر کی قیمت کم نہ ہوئی،روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے۔پٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ جاری ہے کہاں جاکر رکے گا کچھ نہیں کہ سکتے۔مہنگائی کا گراف اتنا بلند ہوگیا ہے کہ عوام اس گراف سے جب نیچے گرے گی تو بچنا ممکن نہ ہوگا ،رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے نکال دی عوام بپھرے شیر کی طرح بجلی کے دفاتر میں گھوم رہی ہے تو بقول شاعر یہی کہا جاسکتا ہے کہ
’’عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا ‘‘
دوسری جانب ملک کی بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی ،جے یو آئی ف ،ایم کیو ایم ،بلوچستان عوامی پارٹی ،بی این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں تو الیکشن کا نام بھی نہیں لے رہی جس سے یہی لگ رہا ہے کہ ان جماعتوں کو انتخابات کی فی الحال کوئی جلدی نہیں ہے۔یہ سیاسی جماعتیں کسی خاص وقت کی متلاشی ہیں جب انہیں محسوس ہوگا تب یہ عام انتخابات پر بات کریں گی باقی دوسری ایک خاص جماعت پی ٹی آئی تو اس کے بیانات کی کہیں بھی اہمیت نہیں ہے ان کی پہلے ،دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کا کوئی اتاپتا نہیں اور کوئی ایسا امکان ظاہر بھی نہیں کیا جارہا جس سے یہ لگے کہ وہ جلد واپس آکر اپنے ووٹرز کو متحرک کر لیں گے۔ لہٰذا انتخابات کب اور کس وقت ہونگے اس پر سوالیہ نشان موجود رہے گا۔
سیاسی جماعتوں کی ایک بڑی تعداد نیب قوانین میں ترمیم چاہتی ہیں مگر عدالت میں اس حوالے سے سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیے کہ نیب قانون کے ذریعے سیاسی انتقام کاسلسلہ ختم ہونا چاہیے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔کیس کی سماعت کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے 50 کروڑ سے کم کرپشن کے مقدمات واپس لے لیے،کس قانون کے تحت یہ تفریق بنائی گئی ہے؟ اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پاکستان میں احتساب کے نظام کا محافظ نیب ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ احتساب کے قوانین میں سب سے سخت قانون نیب کا ہی ہے، نیب کے دائرے سے نکلنے والے کسی اورقانون کے تحت احتساب کے عمل میں شامل ہوں گے، کیا 50 کروڑ کی حد اس لیے مقررکی گئی کہ بڑی مچھلی کو پکڑا جائے؟۔کیا 50 کروڑ سے کم کی کرپشن کرنے والوں کی عزت افزائی کی جارہی ہے؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ٹرائل کی رفتاربہت سست ہوتی ہے، نیب ترامیم 2022 میں انکوائری کے وقت ملزم کی گرفتاری کو نکالا گیا، جولائی2023 میں نیب قانون میں دوبارہ انکوائری سطح پرگرفتاری کوشامل کیا گیا، انکوائری سطح پرگرفتاری نیب کی گرفت اور سیاستدانوں کے گردگھیرا تنگ کرنے کے لیے کی گئی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب قانون کے ذریعے سیاسی انتقام کاسلسلہ ختم ہوناچاہیے۔
ملک میں بجلی کے بلوں پر ہونے والے واویلے پر ’’ نیپرا ‘‘ کی آنکھیں ابھی نہیں کھلیں۔ تاہم بجلی کی قیمت میں اضافے کی درخواست پر چیئرمین نیپرا وسیم مختار برہم ضرورہوئے میرا خیال ہے کہ انہیں برہم ہونے کی بجائے شرمندہ ہونا چاہیے تھا۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ کون سی سائنس ہے کہ سستی بجلی ہونے کے باوجود مہنگی اٹھائی جائے۔ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 2 روپے 7پیسے مہنگی کرنے کی درخواست پر نیپرا میں سماعت ہوئی۔ سی پی پی اے نے 2 روپے 7 پیسے اضافے کو کم کر کے 1 روپے 58 پیسے کی درخواست کر دی۔ سی پی پی حکام نے بتایا کہ جولائی میں گزشتہ سال کی نسبت بجلی کی فروخت زیادہ ہوئی۔ ریفرنس لاگت میں نظرثانی کے بعد گزشتہ سال کی نسبت قیمت میں کمی آئی۔چیئرمین نیپرا کا کہنا تھا بجلی ترسیل سے متعلق مسائل حل کیے جائیں، اس میں صارف کا کیا قصور ہے، یہ کونسی سائنس ہے کہ سستی بجلی دستیاب ہونے کے باوجود مہنگی اٹھائی جائے، ہم صارف پر اس طرح فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ نہیں ڈالیں گے۔ چیئرمین نیپرا نے سوال کیا کہ کوئلے کی قیمتیں گری ہیں پھر بھی ٹیرف زیادہ کیوں ہے؟۔این پی سی سی حکام کا کہنا تھا کہ سسٹم اوورلوڈ ہونے سے مہنگے فرنس آئل والے مہنگے پاور پلانٹس چلانے پڑتے ہیں۔ صرف ماہ جولائی میں سسٹم کو مینٹین رکھنے کیلئے مہنگے پلانٹس چلانے سے 1ارب پچاس کروڑ اضافی بوجھ پڑا۔ اس پر نیپرا اتھارٹی نے ریمارکس دیے کہ سسٹم کی خرابی اوورلوڈ کے صارفین ذمہ دار تو نہیں ہیں۔اس وقت ملک کومعاشی مسائل درپیش ہیںجنہیں کم کرنے اور روپے کے استحکام کیلئے سبھی سٹیک ہولڈرز کو سر جوڑنا پڑے گا۔ابھی مارکیٹ ذرائع یہ بھی بتارہے ہیں کہ قرض کی ادائیگیوں اور درآمدات کھلنے کے سبب ڈالرریٹ مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔اس میںسٹہ بازی کو بھی دخل حاصل ہے جس پرمکمل نظر رکھنا ہو گی۔ بلا شبہ اس وقت ڈالر کے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان بڑھتا ہوافرق حکومت کے لیے چیلنج ہے، عالمی مالیاتی فنڈکے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اس فرق کو 1.25 فیصد تک رکھے جو کہ 5.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔