میاں نواز شریف اور اْن کی بیٹی مریم نواز شریف جب اڈیالہ جیل میں تھیں تو اْس وقت وہ زیرِ عتاب تھے۔ اْن پر بہت مشکل وقت تھا۔ آئے روز کی پیشیاں بھگت رہے تھے اور اْن کو بھی اپنی قانونی ٹیم سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔آپ کو یاد ہوگا پولیس اور وکلا کی لڑائی بھی روز کا معمول تھی۔ کیونکہ اْس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اِس سارے معاملے کو انڈر گرائونڈ دیکھ رہے تھے کہ کہیں میاں نواز شریف اور اْن کی بیٹی کے ساتھ کوئی رعایت تو نہیں برتی جا رہی۔ وکلا کو ملاقاتیوں کی فہرست میں موجود ہونے کے باوجود ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اور تو اور میاں نواز شریف کی فیملی کو بھی ملاقات سے پہلے گھنٹوں انتظار کروایا جاتا۔مریم نواز اور میاں نواز شریف کوایک جیل میں ہونے کے باوجود ہفتے سے پہلے ملنے نہ دیا جاتا۔
اْس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں جتنا قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا گیااْس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ آج جب وقت گزر گیا ہے تو سابقہ چیف جسٹس بہت سے لوگوں کو اپنے دفاع میں دلائل دے رہے ہیں لیکن اب وقت ہی انصاف کر رہا ہے کہ کس نے کس کے کہنے پر کیا کیااور کس کا کون آلہ کار بنا۔شوکت عزیز صدیقی صاحب کا ایک انٹرویو میری نظر سے گزرا جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ کس طرح ثاقب نثار اور اْس وقت کے جی او سی فیض حمید نے قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا او ر جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کو کہا کہ اگر آپ نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہماری ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا اور بارکونسل میں وکلا سے خطاب میں وہ سب کہہ ڈالا کہ آج کل کون عدالت کے بنچ بنوا رہا ہے کس کو سائیڈ لائین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہاں پر ایک سوال اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ جنرل فیض حمید اتنے طاقتور تھے تو اْس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار صاحب اتنے بے خبر کیوں تھے۔ کچھ عرصہ پہلے جب لاہور میں سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات ہوئی تو میں نے اْن سے سوال کیا کہ اگر فیض صاحب اپنا فیض تقسیم کر رہے تھے اور آپ کی پارٹی کے خلاف سیاسی چالیں چل رہے تھے اور جنوبی محاذ بنا رہے تھے تو اْس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار صاحب کو کیانہیں پتا تھا۔حالانکہ اْن کا گھرانہ فوجی تھا والد بھی فوج میں برگیڈیئر مختار ریٹائر ہوئے اور وہ لاہور کے قریب مانانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب جنرل نوید مختار کی بطور کور کمانڈر کراچی تعیناتی ہوئی تو کراچی کے حالات بہت خراب تھے اور آئے روز بوری بند لاشیں ملتی تھیں اور کاروباری لوگوں کو بھتے کی پرچی ملتی لیکن جب جنرل نوید مختار کور کمانڈر کراچی تعینات ہوئے توانہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر آپریشن کیا اور چند ہی مہینوں میں کراچی کو ایک پرْامن شہر بنا دیا جس کا کریڈٹ آج بھی اْس وقت کی حکومت اور جنرل نوید مختار کو جاتا ہے۔ بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جنرل نوید مختار کو تاریخ یاد رکھے گی۔ اْن کانام پاکستان کے بہترین ڈی جی آئی ایس آئی میں یاد رکھا جائے گا۔وہ ہی سوال شاہد خاقان عباسی کو آج سے کچھ دِن پہلے ایک پروگرام میں بھی پوچھا گیا شاہد خاقان عباسی کا وہی جواب تھا۔جنرل نوید مختار کا کیریئر ایک پروفیشنل فوجی فیملی کا ہے جنہوں نے کسی بھی تنازعہ میں اْلجھنے کے بجائے پاکستان کی خدمت کو ترجیح دی اور جہاں بھی رہے اپنے نقش وہاں چھوڑ کر آئے۔ تاریخ اْن کو سنہری حروف میں یاد رکھے گی۔
آج وقت پلٹا۔ وہی اٹک جیل جہاں میاں شہباز شریف اور حسین نواز شریف پابند سلاسل تھے اْسی جیل میں آج عمران خان بھی پابند سلاسل ہیں۔ حسین نواز شریف سے لندن میں کچھ صحافی حضرات نے سوال کیا تو اْنہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ آپ کو یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جس سے آپ گرمی اور سردی کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ عمران خان کی طبیعت دِن بہ دِن خراب ہو رہی ہے عدالت اْن کو جیل میں سہولیات دینے کا حکم دے۔آج جب میں سو کر اْٹھاتوسوچا استاد محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کا کالم آیا ہوگا۔ جب کالم کھول کر پڑھاتو میاں نواز شریف کی واپسی پر تھا دونوں سیاسی پارٹیز کو ایک مشورہ بھی دیا گیاکہ اب بہت ہو گیا درگزر کا مظاہرہ کیا جائے۔ گلے شکوے دور کئے جائیں اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر سیاست کی جائے تاکہ ملک کو اس کا فائدہ بھی ہو اور جمہوریت بھی مضبوط ہو سکے۔