بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سکار سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو بحال کرنے کے لئے ٹائم فریم اور لائحہ عمل سے متعلق معلومات طلب کر لیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے اور بھارت میں انضمام کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران اہم ریمارکس دئیے۔ بنچ نے حکومتی وکلاء سے کہا کہ آپ اٹارنی جنرل کے ذریعے حکومت سے پوچھ کر بتائیں کہ ان کے پاس مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا کوئی لائحہ عمل یا ٹائم فریم ہے؟ فاضل ججز نے یہ بھی باور کرایا کہ مودی حکومت کو ہمارے سامنے بیان دینا ہو گا کہ مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر یونین ٹیرٹریز نہیں بنایا جائے گا۔ یہ اقدام عارضی بنیاد پر محدود مدت کے لئے ہے۔
دوران سماعت جسٹس چندر چوڑ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کو قومی سلامتی کی ضروریات کے پیشِ نظر محدود مدت کے لئے کسی ریاست کو وفاق کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے یا نہیں۔ اس موقع پر حکومتی وکیل نے چندی گڑھ کی مثال دی کہ وہ پنجاب سے علیحدہ ہو کر اکائی کی حیثیت سے وفاق کے زیر انتظام آیا اور اب یہ ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مودی سرکار نے پانچ اگست 2019 ء کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 معطل کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور اسے وفاق کی اکائی قرار دے دیا جس سے ملک کے باقی حصوں کے لوگوں کو یہاں جائیداد خریدنے اور مستقل طور پر آباد ہونے کا حق مل گیا۔
یہ امر واقع ہے کہ بھارت نے تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان کی ایک آزاد اور خودمختا ر ریاست کی حیثیت سے تشکیل کو بھی بادل نخواستہ قبول کیا اور وہ اسی وقت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا اور کشمیری عوام تقسیم ہند کے وقت خود بھی پاکستان کے ساتھ ہی الحاق کرنا چاہتے تھے جبکہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم نے جموں و کشمیر کو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ قرار دے کر اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر ہی زور دیا تھا مگر پاکستان کے لئے کشمیر کی اہمیت کو بھانپ کر ہندو لیڈر شپ نے مہاراجہ کشمیر کے ساتھ ایک فرضی معاہدے کو استعمال کیا اور اسے بھارتی حصہ قرار دے کر اس میں اپنی افواج داخل کر دیں۔ اس کے غالب حصے پر اپنا تسلط جمایا اور اس تسلط پر اپنے حق میں فیصلے کے لئے بھارتی وزیر اعظم نہرو نے اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت کی اس درخواست کا جائزہ لے کر ریاست جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا اور اس کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کر لیا۔ یو این جنرل اسمبلی نے بھی سلامتی کونسل کے اس فیصلہ کی توثیق کی اور اقوام متحدہ کے نمائندے کی نگرانی میں ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری کے اہتمام کا فیصلہ کیا جس کے لئے بھارتی حکومت کو رائے شماری کے انتظام کی ہدایات جاری کر دی گئیں۔ بھارت نے پہلے تو اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ قبول کر لیا مگر پھر اچانک اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مْکر گیا اور اپنے آئین کی دفعات 370 ، اور -35 اے میں ترمیم کر کے مقبوضہ وادی کو بھارت کا حصہ قرار دے کر اسے خصوصی آئینی حیثیت دے دی۔
کشمیری عوام نے یہ بھارتی فیصلہ قبول نہ کیا اور بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے باقاعدہ تحریک کا آغاز کر دیا جو شہادتوں اور قربانیوں کی نادر تاریخ رقم کرتے ہوئے گزشتہ 75 سال سے جاری ہے۔ بھارتی حکومتوں کی جانب سے اس تحریک کو دبانے کے لئے کشمیریوں پر ظلم و جبر کا ہر حربہ استعمال کیا جانے لگا۔ انہیں کشمیر کی خودمختار حیثیت کا لالچ بھی دیا گیا مگر کشمیری عوام کشمیر کی آزادی سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوئے اور آج بھی اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا ساتھ دیا اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں تسلیم کرتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق سے گریز کیا۔
مگر بھارت کو پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی حمائت گوارا نہ ہوئی اور وہ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہو گیا۔ اس کے لئے بھارت نے اپنی مسلط کردہ تین جنگوں اور سقوط ڈھاکہ کی نوبت لانے سمیت جو حربے استعمال کئے وہ تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ بھارت نے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور 1974ء میں اس مقصد کے تحت ہی ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی جبکہ اس نے پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کی سازشوں کا بھی آغاز کیا اور پھر امریکی نائین الیون کے بعد امریکی نیٹو فورسز کے افغانستان پر قبضے سے فائدہ اٹھا کر افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لئے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ یہ ساری بھارتی سازشیں ہنوز جاری ہیں جبکہ اس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں غیر موثر بنانے کی بھی سازش کی جس کے لئے اس نے 1972ء میں پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا اور اسے دوطرفہ مسائل کے حل کے لئے باہمی مذاکرات کا پابند کر دیا مگر بھارت اپنے اس معاہدے کی پاسداری کی راہ پر بھی نہ آیا اور کسی بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات میں کشمیر کا ذکر ہوتے ہی مذاکرات کی میز رعونت کے ساتھ الٹانے لگا۔ ممبئی حملوں کے وقت دہلی میں پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کے مابین جاری مذاکرات اس کی نادر مثال ہیں کہ ا ن حملوں کا الزام بلاتحقیق پاکستان پر دھرتے ہوئے بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ مستقل بند کر دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کے تحت بھارت پاکستان کے علاوہ چین کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے اور اس سے منہ کی کھا کر بھی باز نہیں آتا۔
اسی ناطے سے چین اور پاکستان کے مابین دوستی کے بندھن مضبوط ہوئے اور انہوں نے باہمی دفاعی حصار قائم کیا جبکہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لئے عالمی اور علاقائی فورموں پر بھی پاکستان اور چین یکجہت ہو کر آواز اٹھاتے اور کشمیریوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
بھارت کی ہندو انتہا پسند مودی سرکار کو پاکستان چین دوستی اسی لئے گوارا نہیں کہ اس سے اس کے توسیع پسندانہ عزائم پر زد پڑتی ہے چنانچہ پاکستان چین اتحاد میں نقب لگانے کی نیت سے ہی چار سال قبل پانچ اگست 2019ء کو بھارت کی مودی سرکار نے بھارتی پارلیمنٹ سے آئین کی دفعات 370 ، اور -35 اے کو حذف کرا کے مقبوضہ وادی کو جموں اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کیا اور ان کو بھارت کی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا لیا۔ اس بھارتی جبری اقدام کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ سلامتی کونسل کے تین ہنگامی اجلاس منعقد ہوئے۔ یورپی ، امریکی ، برطانوی پارلیمانوں میں بھی مذمتی قراردادیں منظور ہوئیں۔ بھارت کو عالمی قیادتوں کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیش کشیں بھی کی گئیں مگر مودی سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی۔ الٹا کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لئے مقبوضہ وادی کو بھارتی فوجوں کے محاصرے میں دے دیا گیا جو آج کے دن تک جاری ہے اور اس دوران بھارتی فوجوں نے کشمیریوں پر مظالم کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔
اس تناظر میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بحال کرنے کا کہنا اور اس کے لئے ٹائم فریم طلب کرنا یقینا کشمیری عوام کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگرچہ یہ بھی مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نہیں کیونکہ اس سے ماضی کی طرح کشمیریوں پر بھارتی جبر و تشدد کے راستے کھلے ہی رہیں گے البتہ مودی سرکار کو بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے ضرور ہزیمت اٹھانا پڑے گی جو اپنے پانچ اگست کے اقدام کے خلاف اقوام عالم میں ہونے والے کسی بھی احتجاج کو خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔ اب یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر عالمی دبائو بڑھانے کا یہی نادر موقع ہے۔