جب تاج اچھالے جائینگے ، جب تخت گرائے جائینگے 

امیر محمد خان 

وطن عزیز پر یہ وقت آچلا ہے جب حبیب جالب کی نظمیں، فیض احمد فیض ، احمد فراز و دیگر انقلابی شعراءکے اشعار عملی شکل اختیار کرلینگے۔ کیوں کے اشرافیہ جو آئی ایم ایف کی سہولت کار ہے نے 24کروڑ لوگوںکی زندگی اجیرن کردی ہے ۔ انہیں اپنے بچوں کو مارکر خود خودکشیوںپر مجبور کردیا ہے ۔ ملک کی صورتحال پر آنکھ بند کرکے اظہار خیال کرنے والے خودکشیوںکے واقعات کو ”چند واقعات “کا نام دینگے مگر یہ چند واقعات نہیں یہ عوام کا رد عمل ہے، آج مہنگائی شدید گرمی کے مارے عوام اپنا ذہنی توازن کھونے پر مجبور ہورہے ہیں بقول مرحوم عمر شریف کے وہ کہا کرتے تھے ہمارے ملک میں مظاہرین کے ہاتھ میں پتھر ، اور منہ میں پیٹرول ہوتا ہے مشکل میں انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ پتھر کہاں مارنا ہے اور آگ کہاں لگانی ہے ۔ اب اس میں پیٹرول کو نکال کر پتھر رہ گیا ہے ۔ بجلی سے محروم ، اور ہوشرباءبلوںکے مارے عوام ان معصوم لوگوں کو ماررہے ہیںجو بجلی کے محکمے میں معمولی تنخواہوں پر کام کررہے ہیں اور وہ بھی ان ہی مسائل کا شکارہیں جس سے ملک کی اکثریت دوچار ہے ۔ مگر وہ دن قریب آیا جاتا ہے کہ عوام کے غصے کا نشانہ وہ لوگ ہونگے جو تمام تر صورتحال کے کسی نہ کسی طرح ذمہ دار ہیں وہ گزشتہ حکومتوںکے سرمایہ دار، جاگیر دار حکمران ہوںیادیگر اشرافیہ جنہیں بجلی کے بل دینا ہی نہیں پڑتے ۔ اور یہ رقم اربوں روپے ماہانہ پر محیط ہے ۔ جس ملک میں 467 ارب روپے کی بجلی چوری ہویہ چوری توشہ خانہ کی چوری نہیں جس پر نیب ایکشن لے بجلی کمپنیاںیہ 467 ارب روپے ملک کے دیگر عوام سے وصول کرتے ہیں، عوام نام نہادلٹیروں جنہیں اشرافیہ کا نام دیا جاتا ہے موجودہ نگراں وزیر اعظم، نگران وزیر اطلاعات کھری کھری باتیںتو کرتے ہیںمگر کابینہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ حکومت میں شامل اشرافیہ ، نوکر شاہی جو لاکھوںمیں تنخواہ وصول کرتی ہے وہ بجلی کا بل کیوںادا نہیں کرتی ؟؟انکی ماہانہ تنخواہ سے ڈبل جو ماہانہ مراعات ہیںوہ کیوںبند نہیں ہوتیں۔ مغربی ممالک کے جنکے ہم غلام رہے ہیں ان سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا وہاں تو آج بھی وزراءکبھی اپنی گاڑی کبھی ٹیکسی میں سفر کرتے ہیںانکے سفر کے دوران آگے دس اور پیچھے دس سفرکے دوران کوئی پروٹوکول کی گاڑی نہیں ہوتی ، ہم جتنے قرض دار اتنے ہی ہمارے نخرے ہیں ۔ہماری اپنے نخرے ختم نہیںہوتے تباہی کا ذمہ دار آئی ایم ایف کو گردانتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں شاہ خرچیوں کا ذکر ہوتا ہے اس پر عمل درآمد نہیں کرتے پیٹرول ، گیس کی قیمتوں کی بڑھانے کے احکامات پر عمل درآمدفوری کرلیتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں جو ماضی سے لیکر چند ماہ تک پاکستان کی صورتحا ل کی ذمہ دار ہیں ۔ عوام کو انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں وہ اپنی زندگی کو آسان بنان چاہتے ہیں کئی برسوںسے کسی سیاسی حکومت نے ملک میں دودھ کی ندیاںنہیںبہائیںپھر پر حکومت کرنے کے خواہاں ہیں یہ لوگ انتخابات میںعوام کے سامنے کیا منہ لیکر جائینگے ؟؟آئین کہتا ہے کہ انتخابات ضروری ہیں مگر آئین یہ کیوں نہیںکہتاہے اس سے موجودہ صورتحال میں کیا فائدہ ہوگا ۔ مگر پھر بھی انتخابات جب بھی ہوں ملک کی کمزور معیشت پر بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں۔ جو انتخابات لڑینگے انکے پاس تو اربوںروپیہ ہے جو وہ مہم پر لٹاینگے اور خداناخواستہ انہی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروںکو ووٹ پڑجائیں گے۔ عوام کے ذہنوںمیںسابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف ہی مہنگائی کے ذمہ دار بیٹھ چکے ہیں دوسرے معنوں میں مسلم لیگ ن ، انتخاب ہوئے“ تو وہ مسلم لیگ (نون) کے نامزد کردہ امیدوار کے خلاف ووٹ دے کر اپناغصہ اتاریں گے۔نتائج کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوگاکہ لوگ تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں مگر غصے میں بپھرے عوام مہنگائی کی ذمہ دار مسلم لیگ ن کو سمجھتے ہوئے اسکے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف واپس آرہے ہیں ، ن لیگی سمجھ بیٹھے ہیں کہ میاںنوا ز شریف کی پاکستان آمد سے عوام کا غصہ مسلم لیگ ن سے کم ہوجائیگا ۔ مگر سمجھ سے بالا تر یہ امر ہے کہ وطن لوٹ کر عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف صاحب کن دلائل کی بنیاد پر اپنی جماعت کو موجودہ مہنگائی کے حوالے سے بے گناہ ثابت کریں گے۔ برطانیہ کا سیاسی نظام ہمارے نظام کے مقابلے میں بہت قدیم اور طاقت ور ہے جہاں موجودہ وزیر اعظم بھی تیزی سے اپنی مقبولیت کھورہا ہے۔ اس جماعت کے تیزی سے ہوتے زوال کا بنیادی سبب برطانیہ میں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں کا ناقابل برداشت ہوجانا ہے۔کلیدی وجہ اس کی یقینا روس یوکرین جنگ ہے۔برطانیہ کے عام شہری کو مگر اس پہلو پر توجہ دینے کی فرصت نہیں۔اپنے مسائل کا ذمہ دار فقط حکمران جماعت ہی کو ٹھہرارہا ہے۔تو پاکستان کے عوام کیوں روس یوکرین جنگ یا آئی ایم ایف کو ذمہ دار ٹہرائیں ؟؟
 دوبارہ اقتدار تک جانے کی خواہش رکھنے والوں کے دلوں میں ویسے تو عام آدمی کے لیے کوئی نرمی یا رحم نہیں ہوتا لیکن خدا کرے سڑکوںپر غیر منظم احتجاج حکمرانوں کو عام آدمی کو سہولت دینے پر مجبور کرے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے والے ، مفت بجلی کی سہولیت اٹھانے والے بھی ڈھٹائی سے بیانات جاری کررہے ہیں اور عوام کے خوف سے عوام کے ساتھ احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ انہوں نے بھی مراعات یافتہ طبقے کی مفت سہولیت جو عوام کی پریشانیوںکا باعث ہیں ختم نہیں کیں۔ یہ عجب بے رحم اور دوہرے چہرے کے حامل حکمران تھے ۔ عوام کو ڈیفالٹ ڈیفالٹ اور آئی ایم ایف آئی ایم ایف سناتے رہے افسر شاہی کو سہولت دی، اپنے لیے قانون سازی کی، ، اپنے کیسز سیدھے کرنے کے لیے تھوک کے حساب سے قوانین بنائے یا تبدیل کیے لیکن بجلی کے غیر ضروری استعمال کو روکنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ قصہ مختصر نگراں حکومت کے سمجھ دار وزراء، وزیر اعظم یہ مفت کی عیاشی ختم کراکے تاریخ میں اپنا نام لکھائیں،اور عدلیہ نظریہ ضرورت کااستعمال کرتے ہوئے انہیں 90دن نہیں بلکہ وقت دیںکہ وہ کوئی کارہائے نمایاں اقدام کریں۔ اللہ انہیں توفیق دے آمین ثمہ آمین ۔ 

ای پیپر دی نیشن