مہر حاجی محمد شریف
قصور پنجاب کا قدیم اور تاریخی شہر ہے جو دنیا بھر میں اپنی اہمیت کا خو د حامل ہے قصور کی سر زمین پر اولیا اللہ کی بڑی تعداد موجود ہے اولیاء سے نسبت ایمان کا حصہ ہے۔ پنجاب میں سب زیادہ علماء اکرام کے مزارات ہیں انہیں اولیاء اکرام، صوفی درویش بزرگوں میں سے قصور میں صوفی بزرگ سید عبداللہ شاہ المعروف حضرت بابا بلھے شاہ کے مزار مبارک پر267ویں عرس مباک کی تقریبات عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ عرس مبار ک30اگست جمعہ کو شروع اور یکم ستمبر بروز اتوار کو اختتام پذیر ہوگا حضرت بابا بلھے شاہ کے سالانہ ملکی اور غیر ملکی عقیدت مند ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں شہر میں ہر طرف گہما گہمی ہے اور عید کا سماں ہو تا ہے عر س مبارک پر ملک بھر اور بیرون ملک سے آنے والے زائرین کا قصوریوں کی جانب سے جگہ جگہ استقبال کیا جاتا ہے۔ دوران عرس محفل نعت، محفل قوالی اور دیگر پروگراموں کا اہتمام کیا جا تا ہے جگہ جگہ زائرین کے پانی،دودھ کی سبیلوں کے ساتھ ساتھ لنگر کا وسیع انتظام ہوتا ہے حضرت بابا بلھے شاہ کا تعلق صوفیاء کے قادری مکتبہ فکرسے ہے جبکہ آپ کی ذہنی نشوونما میں قادر یہ کے علاوہ شطاریہ فکر نے بھی بہت زیادہ نمایاں اثر پیدا کیا ہے حضرت بابا بلھے شاہ کا حقیقی نام سید عبداللہ ہے آپ کا نام والدین نے عبداللہ تجویز کیا مگر آپ نے حضرت بابا بلھے شاہ کے نام سے شہرت پائی لوگوں کی بڑی تعداد آپ حقیقی نام سے بے خبر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے کلام میں بھی خود کو بلھاہ کہہ کر پکارا ہے آپ کا تعلق سادات گھرانے سے تھاحضرت بابا بلھے شاہ آپ کا شجرہ نسب 14واسطوں سے حضور غوث عظم حضرت سید نا عبدالقادر جیلانی اور 25 واسطوں سے حید ر کرار حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے حضرت بابا بلھے شاہ کی ولادت باسعاد ت اچ گیلانیاں جو کہ بہاولپور کا ایک معروف گاؤں میں ہوئی آپ کی ولادت کی تاریخ 1016ھ ہجری ہے لیکن بعض کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش مختلف بتائی گئی ہے حضرت بابا بلھے شاہ کا شمار حضرت شاہ عنایت قادری کے عظیم خلفاء میں ہو تا اور آپ شہر قصور کے رہائشی تھے آپ کے پیروں کی نسبت چند واسطوں سے حضرت شاہ محمد غوث گوالیارتک جاپہنچتی ہے حضرت بابا بلھے شاہ کے والد محترم حضرت سید سخی شاہ محمد فطری طور پر نیک سیرت اور عالم دین تھے اور وہ روحانی طاقتوں سے سرشار تھے حضرت بابا بلھے شاہ کے والد محترم کی نیک فطرت اور پاکیزگی کی وجہ سے لوگ آپ کو درویش کے نام سے پکارتے تھے آپ لوگوں کو تبلیغ بھی دیتے اور مسجد کی امامت بھی کرتے تھے آپ کا مزار مبارک پانڈوکے بھٹیاں میں آج بھی موجودہے جہاں ہر سال عرس مبارک ہوتا ہے حضرت سخی شاہ محمد درویش کے زیر سایہ حضرت بابا بلھے شاہ نے اپنی تعلیم وتربیت حاصل کی اور دیگر بچوں کی نسبت جلد ہی تمام اسباق آپ کو یاد ہو گئے جب حضرت بابا بلھے شاہ کی ابتدائی تعلیم ختم ہو ئی تو حضرت سخی شاہ محمد درویش کو فکر ہو ئی کہ وہ اپنے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کیلئے اس مدرسہ کا انتخاب کریں اور انہیں کسی جگہ پر بھیجیں جہاں وہ علم کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے بہترین اصولوں کو سیکھیں حضرت سخی شاہ محمد درویش نے بڑی سوچ بچار اورتحقیق کے بعد شہر قصور کے مشہور عالم حضرت حافظ غلام مرتضیٰ کے مدرسہ بھیج دیا حضرت سخی شاہ محمد درویش جب حضرت بابابلھے شاہ کو لیکر حضرت حافظ غلام مرتضیٰ کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے حضرت سخی شاہ محمد درویش کو کہا کہ میں نے آپ کی شہرتٍ سن رکھی اور مجھے آپ کے بیٹے کی سرپرستی پر فخر ہو گا حضرت بابا بلھے شاہ اپنے قابل اساتذہ کی صحبت کے زیر اثر ہر علم پر عبور حاصل کر تے چلے گئے اور بالا آخر ایک دن ایسا آیا جس دن آپ کے استاد محترم حضرت حافظ غلام مرتضیٰ نے آپ کو دستار فضیلت اور سند عطاء کر تے ہو ئے فرمایا اب تم فارغ التحصیل ہو چکے تمہیں اپنے گاؤں پاونڈو کے میں جانے کی اجازات ہے حضرت بابا بلھے شاہ نے قصور میں رہ کر ناظرہ قرآن مجید، فارسی زبان،میں گلستان وبوستان،منطق،نحو معانی،کنزقدوری،شرح وقار کو نہ صرف سبتھاً پڑھا بلکہ اس قدر عبور حاصل کیا کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا اس کے علاوہ ابن عربی کی کتب کا مطالعہ بھی گہری نظر سے کیا اور اس کے ایک ایک لفظ کو اپنے ذہن میں سمولیا۔ حضرت بابابلھے شاہ ظاہر تعلیم کے اصول کے بعد اپنے آبائی وطن پانڈو کے تشریف اور اپنے والد محترم حضرت سخی شاہ درویش کی آنکھوں کو اپنی دید سے ٹھنڈک پہنچائی حضرت بابابلھے شاہ جو بچپن میں ایک لاابالی انسان تھے اب ان کی کیفیت بالکل بدل چکی تھی آپ پانڈوکے آنے کے بعد اپنے بچپن کے دوستوں کی محافل شریک ہو نے سے گریزاں تھے دوستوں نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو اب نا تو تم بچے ہو ں اور نہ میں بچہ ہوں اب ہم بالغ ہو چکے ہیں لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم اپنا زیادہ سے زیادہ وقت مطالعہ اور یاد الہیٰ میں بسر کریں تاکہ ہمارا دین دنیا سنور سکیں اور ہمیں آخرمیں بھی فلاح حاصل ہو ں دوستوں کو حضرت بابابلھے شاہ کی یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے آپ کو مولوی کا خطاب دے کر مولانا، مولانا کہنا شروع کر دیا حضرت بابا بلھے شاہ کو خواب میں حضرت عبدالحکیم کا دیدار ہو ا اور مسکراتے ہو ئے فرمایا عبداللہ تمہارا حصہ تو شاہ عنائیت قادری شطاری کے پاس لاہور ہی میں موجودہے تمہیں انہیں تلاش کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا میری نصیحت یہ ہے کہ ایک دفعہ مرشد کا دامن پکڑ کر ساری زندگی اس دامن کو ہاتھ سے مت چھوڑانا حضرت بابابلھے شاہ نیند سے بیدار ہو ئے تو آپ کا چہرہ مرشد کامل کے ملنے پرخوشی دے دمک رہا تھا آپ نے حضرت سید عبدالحکیم کے مزارپر الوداعی حاضری دی حضرت بابابلھے شاہ ایک مرتبہ پھر پانڈو والد کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور انہیں حضرت سید عبدالحکیم کے مزار پاک پر حاضری پھر اپنے خواب کے متعلق بیان کیا اور مرشدئے پاک کی نشاندہی کے متعلق بتایا حضرت سخی شاہ محمد درویش نے بیٹے کی بات سنی اور خوشی کا اظہار کیا اور منزل مقصود کی نشاندہی پر انہیں مبارک باد دی حضرت بابا بلھے شاہ نے والد سے مستقل لاہور جانے اور مرشد پاک دست حق پر بیعت کی اجازت طلب کی حضرت سخی شاہ محمد درویش نے باخوشی اجازت دیتے ہو ئے فرمایا عبداللہ تم راہ حق میں خلوص کے ساتھ چلنا اور مرشد پاک تمہیں جو نصیحت کریں اس پر عمل کرنا ان کی رضاکی جستجو میں رہنا کیونکہ مرشد پاک کی رضا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رضاہے پھر حضرت سخی شاہ محمد رویش نے کچھ نقدی اور ایک دستار حضرت بابابلھے شاہ کو دی اور فرمایا یہ مرشد کی نذر کرنا اور حضرت بابا بلھے شاہ والد کی اجازت ملنے پر اپنے مرشد پاک حضرت شاہ عنایت قادری شطاری کی جانب چل پڑے حضرت شاہ عنائیت قادری کا اندازِ بیاں قرآن حدیث نہایت دلکش تھا ۔ اور زیادہ وقت مطالعہ میں گزارتے تھے آپ نے اپنے زمانے کے مشہور علماء سے درس دین حاصل کیا اور اس میں کمال حاصل کیا تعلیم سے فراغت کے کچھ عرصہ بعد آپ کے والد کا وصال ہو گیا جس پر آپ بے حد غمگین ہو ئے اور اسی عالم میں گھر نکل کر سیروسیاحت کی جانب متوجہ ہو ئے اسی دوران آپ کی ملاقات لاہور کے عالم بے مثل اور میدان تصوف کے شہسوار حضرت محمد رضا شاہ قادری شطاری سے ہوئی ۔حضرت محمد رضا شاہ قادری شطاری کی نگاہ کرم اور خصوصی توجہ نے حضرت شاہ عنائیت قادر ی شطاری کی زندگی بدل کر رکھ دی او رآپ مختصر عرصہ میں ولی کامل کے منصب پر فائز ہو گئے۔ حضرت بابا بلھے شاہ خلوت نشینی کے بعد لاہور میں مرشد پاک شاہ عنائیت قادری شطاری کے پاس مکین رہے حضرت بابا بلھے شاہ علماء فضل تھے آپ کو روحانی دولت آرائیں فقیر شاہ عنائیت قادری شطاری سے ملی جو بظاہر پیاز کی پنیری لگا رہے تھے اور درحقیقت متلاشیان حق کے دل میں اللہ تعالیٰ کے کلمہ کا پودا لگانے میں ماہر تھے حضرت شاہ عنایت قادری شطاری محنت اور مشقت کی کمائی کر تے ہو ئے اپنی روحانیت کی عالیٰ دولت مفت تقسیم کر تے تھے ایک دفعہ حضرت بابا بلھے شاہ حضور داتا گنج بخش کے مزار پاک سے لوٹے تو سیدھے مر شد پاک کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کی ظاہری حالت آ پ کے باطن کو ظاہر کر رہی تھی مرشد پاک کو معلوم تھا کہ آپ اس وقت حضور داتاگنج بخش کے مزار حاضری دے کرآئے ہیں حضرت شاہ عنایت قادری شطاری نے آپ سے دریافت فرمایہ عبداللہ یہ کیا حالت ہوگئی جب گئے تھے تو سب ٹھیک تھا اور جب آئے ہوں تو کچھ ٹھیک نہیں ہے مجھے بتاؤں کے تمہیں کیا پریشانی لاحق ہو گئی ہے حضرت بابا بلھے شاہ نے روتے ہوئے عرض کہا کہ حضور میں حضور نبی کریم ﷺ کی یاد میں تڑپ رہا ہوں حضور داتا گنج بخش کے مزار پاک کے حاطہ میں لو گ نعتیہ کلام پڑھ رہے تھے میں نے بھی پڑھا پھر مجھے اپنی محرومی پر رونا آگیا حضرت شاہ عنایت قادری نے جب آپ کی بات سنی تو آبدیدہ ہوگئے او رفرمایا بیٹا عبداللہ حضور نبی کریم ﷺ کی یاد میں آنسو بہانا کسی سعاد ت سے کم نہیں اللہ تعالیٰ تمہاری پکار ضرور سنے گا حضرت بابا بلھے شاہ کی آنکھوں میں عقیدت کے آنسو رواں تھے اور یہ وہ آنسو تھے جو صرف دیدار مصطفی ﷺ کیلئے نکل رہے تھے حضرت بابابلھے شاہ نے روتے ہوئے عرض کیا مرشد پاک میں تو ان آنسوکو شہرے رسول ﷺ کی گلیوں کی خاک میں جذب کرنا چاہتا ہوں حضرت شاہ عنایت قادری شطاری نے کچھ یر خاموش رہنے کے بعد فرمایا بیٹا عبداللہ تم مدینہ طیبہ جانا چاہتے ہوں حضرت بابابلھے شاہ نے عرض کیا کہ مرشد پاک اب دیدار کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے حضرت شاہ عنایت قادری شطاری نے ایک مرتبہ پھر کچھ دیر کیلئے خاموشی احتیار کی اور فرمایا بیٹا عبداللہ تمہیں اپنے سوال کا جواب تین بعد مل جائے گا اپنے حوصلے کو قابو میں رکھنا اور اللہ سے لو لگائے رکھنا جو سب بہترکرنے والا ہے حضرت بابا بلھے شاہ یہ سن کر ملول ہو گئے اور دل میں خیال آیا کہ شائد ان کے مقدر میں مدینہ منورہ کی حاضری نہیں ہے ورنہ پیر ومرشد تین دن انتظار کا حکم نہ دیتے اسی رات کو جب آپ آدھی رات کے وقت وظائف سے فارغ ہو کر سونے کیلئے لیٹے تو یہیں خیال ذہن میں گردش کر رہا تھا اور انہیں خیالا ت میں آپ نیند کی وادیوں میں چلے گئے دوران نیند حضرت بابابلھے شاہ نے دیکھا کہ ایک نورانی محفل ہے اور اس نورانی محفل میں بڑے بڑے بزرگ موجود ہیں اچانک مجلس پر ایک مسحور کن خوشبوچھاگئی اورآپ نے ایک نورانی متبرک ہستی کو دیکھا انہیں بتایا گیا کہ یہی آقا دوجہاں حضورنبی کریم ﷺ ہیں فجر کی نماز کے وقت حضرت بابابلھے شاہ تیزی سے مسجد کی جانب بڑے اور سیدھے مرشد پاک کی خدمت میں حاضر ہو فجر کی نماز میں ابھی وقت تھا کہ مرشد پاک تہجد کی نماز پڑھ کر فارغ ہو ئے تھے جب انہوں نے آپ کو دیکھا اور مسکرادئیے حضرت بابا بلھے شاہ نے مرشد پاک کے پیروں کو پکڑ اور لپٹ کر رونے لگے حضرت شاہ عنایت قادری شطار ی حضرت بابا بلھے شاہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے جارہے تھے اور کچھ دیر بعد حضرت شاہ عنائیت قادری شطاری نے فرمایا بیٹا عبداللہ،اللہ تعالیٰ اس عاجز بندے کی لاج رکھ لی اور تمہیں اس نعمت سے بڑھ کر عطاء فرمایا جس کی تم تمنا کر رہے تھے تم تو مدینہ طیبہ کی زیارت کی تمنا کر رہے تھے اور اللہ نے تمہیں مدینے والی کی زیارت عطاء فرمائی ایک جگہ حضرت بابا بلھے شاہ مرشد کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا حضرت شاہ عنایت کے داماد اور حقیقی بھتیجے مو لوی محمد کسی کا م سے قصور تشریف لے گئے مو لوی صاحب نے اپنے میزبان کے ہاتھ حضرت بابا بلھے شاہ کی خدمت میں پیغام بھیجا،میں قصور آیا ہو ا ہوں اور آپ سے ملا قات کا مشتاق ہوں،حضرت بلھے شاہ پیغام سن کر بہت خوش ہوئے اور آپ نے جوابی پیغام میں فرمایا،آپ کی ذات سے مجھے اپنے مر شد کی خوشبو آتی ہے یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ قصور تشریف لائے میں کام مصروف ہوں اس سے فارغ ہو تے ہی دیدار کیلئے حاضر ہوں گا۔ مولانا مرتضیٰ کی صاحبزادی کا نکاح تھا خطیب و امام ہو نے کے باعث مقامی معززین اور گر دونواح کے ذی حیثیت لو گ بھی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے مو لا نا مر تضیٰ صاحب نے حضرت بابا بلھے شاہ کو مہمان کی خدمت اور تواضع پر مامور کر دیا۔مو لوی صا حب رات بھر جاگ کر حضرت بابا بلھے شاہ کا انتظار کرتے رہے مگر آ پ صبح تک تشریف نہیں لائے تو حضرت شاہ عنا یت قادری کے داماد ظہور محمد شدید نا راضگی کی حالت میں نماز فجر ادا کرتے ہی لا ہور کیلئے روانہ ہو گئے۔ داماد کو سامنے پا کر حضرت شاہ عنایت قادری نے نہایت پر شوق لہجے میں پوچھا کہ میرا بلھا کیسا ہے اسی طرح شاہ عنایت بھی حضرت بابا بلھے شاہ سے خفا ہو گئے۔ یہ ناراضی اس لئے نہیں تھی حضرت بابا بلھے شاہ نے پیرو مرشد کے داماد کی پذیرائی نہیں کی،حضرت شاہ عنایت قادری اپنے مر ید خاص سے اس لئے خفا ہوگئے تھے کہ انہیں یہ گمان تھا ان کا محبوب مرید غرور و تکبر کی بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا۔
حضرت شاہ عنایت قادری نے قصداً اپنے مرید کی ولایت سلب کر لی۔مگر جو لو گ تصوف کی حقیقت سے واقف ہیں وہ یہ راز جانتے ہیں کہ مر ید کے کسی عمل سے مرشد کو شدید اذیت پہنچتی ہے تو مرید کی ولایت خود بخود سلب ہو جاتی ہے اور دوسری طرف حضرت شاہ عنایت کو حضرت بابا بلھے شاہ کے عشق پر ناز تھا۔ حضرت شاہ عنایت کی بات سن کر حضرت بابا بلھے شاہ قوالوں کی صف سے نکل کر ذرا آگے آئے،ساز ند وں نے ساز چھیڑ ے اور آپ نے اپنا کلا م گا نا شروع کر دیا۔
تیر ے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
تیر ے عشق نے ڈیرا میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالہ،میں تاں آپے پیتا
چھیتی بوھڑیں وے طبیبا نئیں تاں میں مر گئیاں
تیر ے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا۔
تو حضرت شاہ عنایت قادری نے بے اختیا ہو کر فرمایا،ہمیں سب خبر ہے کہ تو بلھا ہے، یہ سنتے ہی حضرت بابا بلھے شاہ کا رقص تھم گیا،اور آپ دیوانہ وار آگے بڑھ کر پیرو مرشد کے قدموں سے لپٹ گئے سیدی!میں بلھا نہیں،بھلا (بھولا ہوا) ہوں۔یعنی جسے بھلادیا گیا یہ بھی نیاز مندی کا ایک انداز اور شکایت کی ایک ادا تھی،حضرت عنایت شاہ نے ّآپ کو اٹھا کر گلے سے لگایا اور نہایت جذب عالم سے فرمایا!تو میرا بلھا ہی ہے اب یہ تیرا سوز عشق کبھی کم نہیں ہو گا۔
ڈپٹی کمشنر قصورکیپٹن ریٹائرڈ اورنگزیب حیدر خان کی زیر صدارت تین روزہ267ویں سالانہ عرس حضرت بابا بلھے شاہ کی تقریبات کے انتظامات کا جائزہ لینے کے حوالے سے اجلاس ڈی سی کمیٹی روم میں منعقد ہوا۔ جس میں ایس پی انویسٹی گیشن راؤ طاہر علی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرجنرل محمد جعفر چوہدری،حاجی صفدر انصاری، چیئر مین و ممبران دربار حضرت بابا بلھے شاہ امور مذہبیہ کمیٹی،سی ای او ایجو کیشن، ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز فوڈ اتھارٹی، منیجر اوقاف‘ڈی ایس پی سٹی،ڈی ایس پی ٹریفک، ڈی او سول ڈیفنس،ایکسئین واپڈا، سی او میونسپل کمیٹی اوردیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں عرس حضرت بابا بلھے شاہ کی تقریبات، سیکورٹی و دیگر انتظامات کا حتمی جائزہ لیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے اس موقع پر بتایا کہ چیف آفیسر میونسپل کمیٹی اور دیگر متعلقہ افسران کو ہدایت کی گئی کہ دربار کے اردگرد کے علاقوں‘سٹرکوں‘دربار سے ملحقہ قبرستان اور دیگر جگہوں پر زائرین کی سہولت کیلئے لائٹس کا انتظام کریں اور عرس مبارک کے موقع پر صفائی ستھرائی کیلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زائرین کی سہولت کیلئے دوسہرا گراؤنڈ سمیت شہر کے تین مقامات پر پارکنگ اسٹینڈڈ ز قائم کئے گئے ہیں۔ عرس مبارک کے تمام انتظامات سے ہر وقت آگاہی رکھنے کیلئے سینٹرل کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے جہاں جدید سی سی ٹی وی کیمروں کی مد د سے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ زائرین کی سہولت کیلئے دربار کے احاطہ میں محکمہ ہیلتھ، سول ڈیفنس، پولیس، فوڈ اتھارٹی، واپڈا سمیت دیگر محکموں کے کیمپ لگائے گئے ہیں۔
صدربھٹہ ایسوسی ایشن قصوراشفاق جمعہ نے کہا ہے کہ عظیم صوفی بزرگ حضرت بابابلھے شاہ کا سالانہ عرس کا انتظار بڑی بے چینی کے ساتھ کیا جاتا ہے جس پر لوگ انتہائی مذہبی عقیدت واحترام کے ساتھ مناتے ہیں اندرون اور بیرون ملک سے ہزاروں کی تعداد سے زائرین مزار پر حاضری کے لئے آتے ہیں زائرین کے لئے بہترین انتظامات کیے جا تے ہیں،مہر محمد لطیف چیئرمین یوسی نظام پورہ قصور نے کہا ہے کہ قصور کی تاریخ کو عظیم بزرگ حضرت بابابلھے شاہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے قصوریوں نے حضرت بابابلھے شاہ جیسی عظیم ہستی سے فیض حاصل کیا ہے زائرین انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ مزار پر تشریف لا تے ہیں زائرین کے لئے بہترین انتظامات ہماری ذمہ داری ہے،معروف تاجرمحمد اکرام کپڑے والے نے کہا ہے کہ اولیا ء اللہ ہماری شان ہیں جن کی وجہ سے پاکستانی سرزمین پر ان کا ہو نا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے بیشما ر لوگوں نے اولیاء اللہ سے فیض حاصل کیا عظیم بزرگ حضرت بابابلھے شاہ کا سالانہ عرس انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا تا ہے۔فیصل شریف مہر ایڈووکیٹ نے کہا کہ قصور ایک قدیم تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور قصور کی سرزمین پر کثیر تعداد میں اولیاء اللہ کے مزارات موجود ہیں ان میں سے حضرت بابابلھے شاہ کو قصور میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور ملک بھر سے زائرین عقیدت کے ساتھ عرس پر آتے ہیں۔ سابق چیئرمین مہر لطیف نے کہا ہے کہ اولیاء اللہ سے عقیدت واحترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے حضرت بابابلھے شاہ ایک عظیم ہستی ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمر اللہ تعالیٰ کی راہ میں گزار دی ہے آج ان کا نام پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے حضرت بابابلھے شاہ نے ساری زندگی انسانیت کی خدمت کی اور دین کو پھیلا کر رب العزت کی ذات کو راضی کیا اور آج ان کا نام دنیا بھر میں پہچانا جا تا ہے لاکھوں زائرین روح کی تسکین کے لئے ان کے مزار پر آتے ہیں۔
حضرت بابا بلھے شاہ کے عرس مبارک کی سکیورٹی کے حوالہ سے ڈی پی او قصورمحمدعیسیٰ خاںنے صد رپر یس کلب قصور حاجی محمد شریف مہر نمائندہ روزنامہ نوائے وقت سے ملاقات کے دوران بتایا کیا کہ عرس حضر ت با با بلھے شاہ کے موقع پرسکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں،1700پولیس افسران و اہلکاران تین شفٹوں میں ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔ ڈی پی او قصور نے کہا کہ سابقہ عرس مبارک کی نسبت سکیورٹی انتظامات کو مزیدفول پروف بنانے کیلئے مزار شریف کا تفصیلی جائزہ لیاگیا اور متعددبار میٹنگز کر نے کے بعد سکیورٹی کے ما سٹر پلا ن کو حتمی شکل دی گئی ہے اس سال زائر ین کی جا ن و مال کی حفا ظت کے لئے عرس با با بلھے شاہ پر پولیس افسرا ن 01ایس ایس پی، 01ایس پی،8ڈی ایس پی،35انسپکٹ85سب انسپکٹر،140 اسسٹنٹ سب انسپکٹر،1050ہیڈکا نسٹیبل،1112کا نسٹیبل،70لیڈی کانسٹیبل،248پولیس قومی رضا کاراور85سول ڈیفنس کے اہلکار کل 1700پولیس افسران و اہلکاران سکیو رٹی کے فرا ئض سر انجام دیں گے جن کی 24گھنٹے ڈیو ٹی کی تین شفٹیں بنا ئی گئی ہیں۔ سکیورٹی کے انتظامات کو مزید فول پروف بنانے کیلئے احاطہ دربارمیں داخلے کیلئے تحصیلدار چوک والاگیٹ استعمال کیا جائے گا جبکہ ریلوے روڈ والا گیٹ خارجی راستہ کے طور پر استعمال کیا جائے گاخارجی گیٹ سے کسی قسم کی انٹری نہیں ہوگی جہاں پر7چیکنگ پوائنٹس بنا ئے گئے ہیں۔کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کیلئے ڈسٹرکٹ پولیس لائن قصور میں 3ریزرو ز سٹینڈ ٹو رہیں گی جبکہ ضلع شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب سے بھی پولیس کی نفری طلب کرلی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سکیورٹی انتظامات کو مانیٹر کرنے کیلئے احاطہ دربار اور اہم جگہوں پر80 کلوز سرکٹ کیمروں کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ زا ئر یں کی ر ہنما ئی اور مدد کے لئے احا طہ دربا ر میں پولیس کیمپ لگایا جائے گا جس کے ساتھ میڈیکل کیمپ،ایمبولینس،فا ئر بریگیڈ،ٹی ایم اے کا عملہ، سو ئی گیس کا عملہ، واپڈا کا عملہ کسی بھی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے موجود ہو گا۔علاوہ ازیں پولیس کیمپ میں سا ؤ نڈ سسٹم اور وائرلیس بیس سیٹ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے پرانا لاری قصور اور بلدیہ چوک بنا یا گیا ہے جبکہ اندرون شہر کے زائرین اپنی موٹرسائیکل دسہرہ گراؤنڈ میں پارکنگ کریں گے۔حضرت بابا بلھے شاہ کے مزار پر جاری تعمیراتی کام نے زائرین کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اس مزار پر جاری کام کا آغاز سابقہ دور حکومت میں کیا گیا تھا، لیکن یہ کام ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ مزار کے اطراف میں جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر ہیں، جس سے نہ صرف مزار کا تقدس متاثر ہو رہا ہے بلکہ زائرین کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔خاص طور پر، جب بابا بلھے شاہ کے عرس کے موقع پر یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم تعمیراتی کام کی سست رفتاری کی وجہ سے زائرین کو عبادت اور مزار کی زیارت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف زائرین کے لیے پریشانی کا باعث ہے بلکہ علاقے کی مذہبی اور ثقافتی اہمیت کو بھی متاثر کر رہا ہے۔