دہشت گردی اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اسی لیے میں نے لکھا ہے اسرائیل گردی، جس شدت کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں یہ معاملات ایک اور عالمی جنگ کی طرف جائیں گے۔ اس میں کتنا وقت لگتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ ایسا ضرور ہو گا۔ گوکہ آج امت مسلمہ فلسطین کے معاملے پر زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کر رہی لیکن ہمیشہ تو ایسا نہیں رہے گا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ آج مسلمان ممالک کے جو حکمران ہیں انہیں اپنی اس سستی، کاہلی، ڈر اور خوف کا جواب ضرور دینا ہو گا۔ بحثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ ایک دن ہمیں اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ ہمارے اردگرد اگر مسلمانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے دشمنان اسلام ان پر ظلم کر رہے، کیا ان حالات میں امت مسلمہ کے حکمرانوں کو صرف بیانات کی حد تک ہی رہنا چاہیے۔ یقینا ایسا نہیں ہے مسلم امہ کے حکمرانوں کو فلسطین میں ہونے والے ان مظالم پر متحد ہو کر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو جواب دینا چاہیے۔ اگر چند ماہ میں فلسطین کو ملبے کا ڈھیر بنانے اور ہزاروں مسلمانوں کی شہادت کے باوجود امریکہ ظالم اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے تو پھر مسلم امہ کے راستے میں رکاوٹ کیا ہے، کیوں مسلم ممالک فلسطین کے معاملے پر متحد ہو کر جواب نہیں دے سکتے۔ امریکہ ایک طرف دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کا علمبردار بنا پھرتا ہے تو دوسری طرف اسے فلسطین پر ہونے والے مظالم نظر نہیں آتے۔ جہاں بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، بچے گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، خواتین کی عصمت دری ہو رہی ہے، بزرگوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ خون بکھرا پڑا ہے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی کے باوجود امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی بنا ہوا ہے۔ کیا مسلمانوں کا خون اتنا سستا ہے، کیا وہاں بچوں، خواتین اور بزرگوں کا بہنے والا خون کسی کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتا، کیا یہ مسلم امہ کے حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس ظلم کے خلاف اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ سب سے بڑھ کر قبلہ اول مسجد اقصٰی کی حفاظت اور اس کی حرمت کے لیے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے فلسطین کے مسلمانوں کو اسرائیل گردی سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ بدقسمتی ہے کہ اپنے ملکوں میں حزب اختلاف کو کچلنے کے لیے تمام حربے اختیار کرنے والے مسلم ممالک جب کشمیر یا فلسطین کی بات آتی ہے تو صرف لفظی مذمت پر ہی اکتفا کرتے ہیں حالانکہ بات کب سے مذمت سے نکل کر مرمت تک آ چکی ہے۔ اب تو اسرائیل کے دہشتگردوں نے مسجد اقصٰی کی حرمت کو پامال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اسرائیل کے وزیر قومی سلامتی اتما بن گویر نے مسجد اقصیٰ کے اندر یہودی عبادت گاہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں یہودی عبادت گاہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس مقدس جگہ پر اسرائیلی جھنڈا بھی لگائیں گے۔ مسجد اقصیٰ کمپاؤنڈ جسے یہودی ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں، مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین مقام اور فلسطینیوں کی شناخت ہے، یہودی اسے پہلا اور دوسرا ٹیمپل تصور کرتے ہیں جسے ستر قبل مسیح میں رومیوں نے تباہ کر دیا تھا۔ آرتھوڈوکس یہودیوں کی جانب سے بھی اتمار بن گویر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ نامور یہودی ربیوں کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی حرمت کی وجہ سے کسی بھی یہودی کا وہاں داخلہ ممنوع ہے ۔ اتمار بن گویر کے مطابق یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں عبادت کی اجازت ہونی چاہیے، جب عرب اپنی مرضی سے جہاں چاہیں عبادت کر سکتے ہیں تو یہودیوں کو بھی اپنی مرضی سے عبادت کی اجازت ہونی چاہیے۔
ایک طرف قبلہ اول کی حرمت کا معاملہ ہے، ایک طرف مسلمانوں کے بہتے خون کا معاملہ ہے۔ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے یہ اتنا غیر اہم معاملہ نہیں کہ صرف بیان دے کر خاموش ہو جائیں۔ کیسے قابض، ظالم یہودی مسجد اقصٰی قبلہ اول میں اپنی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کو متحد ہو کر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو جواب دینا ہو گا۔
دوسری طرف اداروں کی نجکاری پر بھی کام ہو رہا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑا، انتہائی حساس اور مشکل کام ہے۔ نجکاری عمل کو مستقبل میں مخالف حکومت کی طرف سے کسی بھی انداز میں متنازع بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں دیکھا جائے تو وفاقی وزیر برائے نجکاری و سرمایہ کاری بورڈ عبدالعلیم خان بہت اہم کام کرنے جا رہے ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ وہ نجکاری عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ عبدالعلیم خان کی موجودگی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی قسم کے ذاتی فائدے کے بجائے ملک و قوم کی ترقی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔ اب تک جو کام ہوا ہے اس میں انہوں نے پارلیمنٹ میں سوالات کا تفصیل سے جواب دیا ہے اور اس معاملے میں الزام تراشی کے بجائے مستقبل سنوارنے پر توجہ دی ہے۔ اب بھی وہ اسی عزم کے ساتھ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے نجکاری، سرمایہ کاری بورڈ اور مواصلات عبدالعلیم خان کہتے ہیں کہ خسارے والے قومی اداروں کی نجکاری اہم ترین معاملہ کو قوانین و ضوابط کے مطابق تیزی سے نمٹانا ہو گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پرائیویٹائزیشن سے ملکی خزانے پر بوجھ کم ہوگا اسی لئے مزید ادارے بھی نجکاری کی فہرست میں شامل ہو رہے ملکی معیشت پر نجکاری کے عمل کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ’’موڈیز‘‘ کی ریٹنگ اس امر کا واضح ثبوت ہے۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن بورڈ کے دو سو تیئیسویں اجلاس میں پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز، روز ویلٹ ہوٹل سمیت نجکاری کے مختلف معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ اداروں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے شہریوں کو بے روزگاری سے بچانے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔
آخر میں حسن رضوی کا کلام
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پہ نام لکھنا
ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرف سلام لکھنا
وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں سلگتے دن تھے مہکتی راتیں
وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکھنا
گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا
وہ آرزوؤں کے خواب بننا وہ قص نا تمام لکھنا
مرے نگر کی حسیں فضاؤ کہیں جو ان کا نشان پاؤ
تو پوچھنا یہ کہاں بسے وہ کہاں ہے ان کا قیام لکھنا
کھلی فضاؤں میں سانس لینا عبث ہے اب تو گھٹن ہے ایسی
کہ چاروں جانب شجر کھڑے ہیں صلیب صورت تمام لکھنا
گئی رتوں میں حسن ہمارا بس ایک ہی تو یہ مشغلہ تھا
کسی کے چہرے کو صبح کہنا کسی کی زلفوں کو شام لکھنا