مملکتِ خداداد پاکستان کو آزاد ہو 76 برس مکمل ہوچکے ہیں مگر آج بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ہم صحیح معنوں میں ایک آزاد ملک ہیں۔ اگر آزاد اور خود مختار ملک ہیں تو ہمارے معاملات میں آئی ایم ایف جیسے اداروں کی مداخلت کیوں ہے؟ امریکہ چین‘ روس اور دوسری بین الاقوامی طاقتیں ہمیں مشورے کیوں دیتی ہیں؟ ہم اپنے مسائل کے حل کیلئے عرب ممالک کے دروازے پر دستک کیوں دیتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم نہیں ہیں۔ہماری معشیت اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہے۔ لڑ کھڑاتی معشیت کے سبب ہم کمزور اور نحیف ہیں۔ معشیت کسی ملک یا ریاست کے وجود کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔اگر یہ مضبوط ہے تو ملک مضبوط ہے۔ اگر یہ کمزور ہے تو معاشی طور پر کمزور ملک کبھی سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔ معاشی طور پر غلام اور دوسروں کے دستِ نگر ممالک کبھی اپنے آپکو حقیقی معنوں میں آزاد نہیں کہ سکتے۔ اپنے فیصلے آزادانہ طور پر نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے حالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ گزشتہ 76 برسوں میں ہمارے حکمران طبقے نے ملکی معشیت کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ نہیں دی۔ سیاست کو خدمت کا درجہ نہیں دیا۔ملک کو مضبوط بنانے کی بجائے ذاتی مفاد اور اقتدار کی سیاست کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکمران طبقہ یا اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتا چلا گیا۔ عام آدمی غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا۔ ملکی معشیت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔
جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت ڈالر کا ریٹ تین روپے تھا اور آج اسی ڈالر کا ریٹ پونے تین سو روپے ہے۔ دوسرے ممالک کی مدد کرنے والا پاکستان آج 130 ارب ڈالر کا مقروض ہے اور آئی ایم ایف کی 27 ارب ڈالرز کی قسط واجب الادا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ ہم یہ قسط ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف نے جو قرضہ پاکستان کو دیاتھا وہ اپنی شرائط پر دیا تھا جسے ہمارے حکمرانوں نے قبول کر لیا کیوں کہ اسے قبول کرنے کے سوا چارہ کوئی نہ تھا۔ ان شرائط کو پورا کرنے کیلئے جہاں ملک مزید معاشی ابتری کا شکار ہو رہا ہے وہاں عوام مہنگائی کی چکی میں پستے جارہے ہیں۔ انہیں تعلیم‘ صحت‘ انصاف تحفظ جیسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ کمزور ملکی معشیت کے سبب ہے۔ اب آئی ایم ایف سے چار ارب ڈالر کا مزید قرضہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 4ارب ڈالر کا یہ قرضہ آئی ایم ایف پھر نئی شرائط کیساتھ دے گا۔جب ان شرائط پر عملدرامد ہوگا تو مہنگائی کا نیا طوفان آئیگا۔ عام شہری کی زندگی مزید مشکل ہوگی۔ یہ مشکلات عوامی بے چینی میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ یہ بے چینی مزید عدم استحکام پیدا کرے گی۔ اگر 4 ارب ڈالر کا یہ نیا قرضہ بھی ملکی معشیت کو استحکام نہ دے سکا تو پھر کیا ہوگا؟ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ ہمارے حالات یہ ہیں کہ 12 ہزار سے زیادہ صنعتی کمپنیاں اپنے یونٹس پاکستان سے بند کرکے دبئی منتقل ہو چکی ہیں یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ پاکستان کی ایک بڑی کمپنی ملت ٹریکٹر کا یونٹ بند ہوچکا ہے۔ٹیلی نار‘ ٹوٹل‘ اینگرو اور شیل جیسے ادارے ہمارے ہاں کام بند کر چکے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز بند کئے جارہے ہیں۔ ایک اور خبر کیمطابق انکی نجکاری کی جارہی ہے۔ یوٹییلٹی سٹورز کے ملازمین سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ عوام کیلئے رہن سہن‘ علاج معالجے اور دیگر ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی قیامت سے کم نہیں ہے۔آئی پی پییز کے ساتھ کئے گئے معاہدے قیامت ڈھا رہے ہیں۔ ملکی وسائل آئی پی پیز لگانے والے چالیس خاندانوں کے حوالے کر دیئے گئے۔ ہیں۔ مہنگائی اور مہنگے بلوں کے سبب شہری خود کشیاں کر رہے ہیں۔ حالات ہیں کہ سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ عوام میں بے چینی پیدا ہورہی ہے۔آگے چل کر یہ بے چینی کہیں ملکی سلامتی کیلئے سوالیہ نشان نہ بن جائے اس لئے ان حالات کا جلد تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا؟ اس کا حل کیا ہے؟ ملکی معشیت کو استحکام کیسے دیا جاسکتا ہے؟ پاکستان کی کمزور معشیت کی سب سے بڑی وجہ آمدن سے زیادہ اخراجات ہیں۔ حکمران طبقے اور ہمارے ماہرین معشیت نے اسی سلسلے میں کبھی بھی مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہماری آمدنی محدود اور اخراجات لامحدود ہیں۔ جب تک آمدن اور اخراجات میں توازن نہیں ہوگا تب تک معشیت میں بہتری نہیں آسکتی۔ ہماری ٹیکس کلیکشن بارہ اور تیرا فیصد کے درمیان ہے۔ وہ بھی زیادہ تر وصولی ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ٹیکس وصولی کا نظام درست نہیں ہے۔ ٹیکس اس طرح سے وصول کیا جاتا ہے جیسے جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ لوگ خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے لوگوں کو بتایا جائے کہ ٹیکس ادائیگی کے ٹیکس دہندہ کو کیا فوائد ہوسکتے ہیں؟ کیسے اسے اور اسکے بچوں کو تعلیم‘ علاج‘ تحفظ‘ انصاف اور اچھی باعزت زندگی کی سہولیات مل سکتی ہیں۔ کیسے اسکا اپنا ملک مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو سکتا ہے تو لوگ خوشی سے ٹیکس ادا کریں گے۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہوگا کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس انہی پر خرچ ہوگا نہ کہ حکمرانوں کی عیاشی پر۔ اسی لیے بہتر ٹیکس کلیکشن کیلئے حکومت اور عوام میں اعتماد کی فضا ضروری ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔
ہمارے ہاں ایکسپورٹ کے مقابلے میں امپورٹ زیادہ ہے جب ایکسپورٹ کے مقابلے میں امپورٹ زیادہ ہوگی تو یہ بھی انکم اور اخراجات کے توازن کو خراب کرنے کا سبب بنے گا۔ ہمارے ہاں حالات یہ ہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم اور دالیں امپورٹ کرتے ہیں۔ صنعتی حوالے سے معشیت کا حال یہ ہے کہ بیشتر انڈسٹری غیر فعال ہے۔ اور جو فعال ہے اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے کہ صنعت کو ملکی سطح پر کیسے مضبوط کیا جائے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا کیسے اعتماد بحال کیا جائے تاکہ وہ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کریں اور ہماری صنعت و حرفت کوبھی فروغ مل سکے۔ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ بیرون ملک ہمارے سفارت خانوں میں چیمبرز آف کامرس سے متعلقہ کمرشل اتاشی کی تعنیاتی کی جائے جو ان ممالک میں وہاں کی مارکیٹ کا جائزہ لے کر اپنے ملک کے صنعتی مال کو ان منڈیوں تک پہنچانے کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے تجارتی خسارہ کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں معاشی زبوں حالی کی ایک وجہ کرپشن بھی ہے جب سارا نظام ہی کرپٹ ہوگا تو ملک خاک ترقی کرے گا۔ معشیت مضبوط کیسے ہوگی؟ کرپٹ نظام کی وجہ سے سیاست بھی خدمت کی بجائے کاروبار بن چکی ہے۔ ایک سیاستدان الیکشن میں20 کروڑ روپیہ لگاتا ہے تو وہ اسے منافع کیساتھ واپس لینا چاہتا ہے۔ یہاں اقتدار اور حکومت کے ذریعے عوامی فلاح یا بھلائی کے کام کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اقتدار کے ذریعے اختیار کے مزے لوٹے جاتے ہیں۔ کرپشن جو اوپر سے شروع ہوتی ہے نیچے تک ہر ادارے میں چلی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہر ادارے میں کرپشن ہے۔ لوٹ کھسوٹ ہے۔ ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس نفسا نفسی کے سبب ملکی معشیت روبہ زوال ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ کرپشن کے سبب وسائل کی ہونے والی چوری ختم کی جائے۔ جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگابہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ بہت سی وزارتیں اور محکمے ایسے ہیں جن کی ضرورت نہیں۔ جیسے شماریات کی وزارت۔ اسکا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہے محض اقربا پروری ہے۔ امریکہ جیسے امیر ملک میں بھی 15 سے زیادہ وزارتیں نہیں ہیں۔غلط ترجیحات کے سبب بھی ہم مالی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ پیداواری منصوبہ پر خرچ نہیں کرتے بلکہ ایسے منصوبے جو محض نمودونمائش اور دکھاوے کے ہوتے ہیں ان پر سرمایہ ضائع کر دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر پیداواری شعبوں پر سرمایہ کاری بند کی جائے اور صرف پیداواری شعبوں کو ہی ترجیح دی جائے۔ دفاعی اخراجات صرف ضروری منصوبوں پر ہی خرچ کئے جائیں۔ خطے کے حالات کے پیش نظر دفاعی ضروریات پوری کرنے کے کیلئے بہت سے اخراجات آجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے جہاں تک ممکن ہو ملک کے معاشی مسائل کے پیش نظر صرف انتہائی ضروری منصوبوں پر ہی اخراجات کئے جائیں۔ آخر میں عرض ہے کہ زراعت کی مضبوطی کیساتھ ساتھ صنعتی ترقی کے فروغ کیلئے بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ صنعتی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ حائل رکاوٹوں کو بلاتاخیر دور کیا جائے۔ انہیں اعتماد اور بھروسہ دلایا جائے کہ انکی سرمایہ کاری یہاں بلکل محفوظ ہے۔ جب مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں میں یہ اعتماد اور بھروسہ بڑھے گا تو سرمایہ کاری ہوگی۔ بیروزگاری, اور مہنگائی کا خاتمہ ہوگا اور ملکی معشیت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہوگی۔ ملک خوشحال ہو گا۔ اس خوشحالی سے ہی ملک حقیقی آزادی کی طرف گامزن ہوسکے گا۔