جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور اقتدار میں بلوچستان کے قبائلی سردار اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا تھا- 26 اگست 2024 کو سردار اکبر بگٹی کی اٹھارویں برسی کے موقع پر علیحدگی پسند کالعدم تنظیم بی ایل اے کے دہشت گردوں نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں حملے کر کے بلوچستان کو لہو لہو کر دیا-دہشت گردی کے ان المناک واقعات میں 39 معصوم اور بے گناہ افراد جان بحق ہو گئے-ائی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق سکیورٹی فورسز نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے 21 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ سکیورٹی فورسز کے 14 افراد جان بحق ہو گئے-ایک ہی روز میں 74 شہریوں کی ہلاکت پاکستان اور بلوچستان کی تاریخ کا المناک سانحہ ہے-
پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سکیورٹی فورسز کو اندازہ نہیں تھا کہ بی ایل اے اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر اس قدر وسیع اور شدید حملے کر سکے گی-پاکستان کا بزرگ سیاستدان ہونے کی بناء پر میں اپنے علم کے مطابق بڑے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا گیا - ان وجوہات اور اسباب کو تلاش ہی نہیں کیا گیا جو علیحدگی پسندگی کو فروغ دینے کا سبب بنتے رہے ہیں-بی ایل اے اور دیگر کالعدم تنظیموں میں مڈل کلاس کے پڑھے لکھے افراد شامل ہیں جن کا تعلق کسی ایک قبیلے کے ساتھ نہیں ہے-بی ایل اے کے مرکزی لیڈر ڈاکٹر اللہ نزر ہیں جو گولڈ میڈلسٹ ہیں اور انہوں نے بولان میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی تھی- بلوچ عوام کے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے تنظیموں کی قیادت بھی روایتی سیاستدانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے مڈل کلاس کے پڑھے لکھے لوگ ان تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں-
گوادر میں ’’حق دو تحریک‘‘ کے لیڈر پڑھے لکھے افراد ہیں اسی طرح بلوچ یکجہتی کونسل کی مرکزی لیڈر ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ بھی تعلیم یافتہ ہیں جن کے والد کو قلات میں لاپتہ کیا گیا اور دو سال کے بعد ان کی لاش ملی- لا پتہ افراد کے مسئلے نے علیحدگی پسند رجحانات کو تقویت دی ہے- یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کئی لاپتہ نوجوان دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث پائے گئے-
بلوچ تنظیموں کی پڑھی لکھی قیادتوں سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ پنجاب کے محنت کش عوام کو نشانہ بنا کر آزادی کے کون سے مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں-کیا ایسی غیر دانشمندانہ حکمت عملی کی وجہ سے ان کی اپنی تحریک پر منفی اثرات مرتب نہیں ہو رہے-معصوم اور بے گناہ افراد کو قتل کرنا جنیوا کنونشن کے قوانین کے منافی ہے-
بلوچستان میں انسانوں کے بہتے ہوئے لہو کی ذمہ داری سب سٹیک ہولڈرز کو قبول کرنی چاہیے- پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جس نے طاقت کے ذریعے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی ناکام کوشش کی- بلوچستان کے قبائلی سردار جو اختیارات کے باوجود اپنے بلوچ عوام کو بنیادی حقوق نہ دے سکے بلکہ ان کا استحصال کرتے رہے- بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں جن کو انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے کا موقع ملا اور 18 ویں ترمیم کے بعد ان کو مکمل صوبائی خود مختاری حاصل تھی اور مالی وسائل بھی منتقل کیے گئے مگر وہ بلوچستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم نہ کر سکے-یہ سچ چڑھتے سورج کی طرح پاکستان اور بلوچ عوام کے سامنے ہے کہ بلوچستان کا صوبہ قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے مگر بدقسمتی سے77 سال کے بعد اج بھی بلوچستان سب سے پسماندہ صوبہ ہے- یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس نے علیحدگی پسندی اور احساس محرومی کے جذبات پیدا کیے ہیں-اس کی ذمہ داری ان تمام حکمرانوں کو تسلیم کرنی چاہیے جو وفاق اور صوبے میں برسر اقتدار رہے ہیں- جنہوں نے کرپشن اور لوٹ مار کرکے ہرصوبے کی اشرافیہ اور عام آدمی کے معیار زندگی میں فرق ناقابل برداشت بنا دیا ہے- حالات کی سنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے سچائی اور مفاہمتی کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے جو انتہائی اہلیت اور دیانت کے ساتھ بلوچستان کے مسائل کی ذمے داری کا تعین کرے اور ان کے حل کے لیے سفارشات مرتب کرے- نیک نام شہرت کی حامل شخصیت طارق کھوسہ جو سابق ائی جی پولیس سابق ڈی جی ایف ائی اے رہے انہوں نے بلوچستان میں پانچ سال سروس کی- چند روز قبل انہوں نے اپنے ایک مقبول آرٹیکل میں تحریر کیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان سوشل کانٹریکٹ فرسودہ اور ناکام ہو چکا ہے-قومی یکجہتی قانون کی حکمرانی عدل و انصاف مساوی مواقع سماجی انصاف بنیادی حقوق کی فراہمی پاکستان میں نظر نہیں آتے- بدلے ہوئے حالات کا درست ادراک کرتے ہوئے لازم ہے کہ ہم بلوچوں کو عزت دیں اور پختونوں پر اعتماد کریں -
وفاق اور صوبوں میں نیک نام شہرت کے حامل اہل افراد پر مبنی چھوٹے سائز کی حکومتیں تشکیل دیں جو پاکستان میں ادارہ جاتی اصلاحات کا کام مکمل کریں اور پاکستان کے نوجوانوں کے دلوں میں ایک نئی امید پیدا کریں- پاکستان کے مقتدر حکمرانوں کو طارق کھوسہ جیسے اہل اور دیانت دار افراد کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی باتوں پر توجہ دینی چاہیے- بلوچستان کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ عسکری نہیں بلکہ سیاسی ہے- بلوچستان کے عوام کو شفاف ووٹ کا حق ملنا چاہیے-ہم سیاسی طاقت اور استحکام کے ساتھ ہی اپنے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں- اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان کے تمام صوبوں کو ان کے صوبائی حقوق مل چکے ہیں اور مالی وسائل بھی منتقل کر دیے جاتے ہیں-مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں نوجوانوں پر سرمایہ کاری نہیں کرتیں ان کو ہنر مند نہیں بناتیں اور نہ ہی ان کو معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرتی ہیں جس کی وجہ سے مایوسی اور بے حسی پیدا ہوتی ہے- اسی مایوسی اور بے حسی کو علیحدگی پسند تنظیمیں استعمال کرتی ہیں-پاکستان کے تمام مسائل کا پائیدار اور مستقل حل یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو خود مختار اور مستحکم بنایا جائے-اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دشمن قوتوں نے بلوچستان کو اپنا مرکز اور محور بنا رکھا ہے وہ نہیں چاہتے کہ سی پیک مکمل ہو اور پاکستان اور بلوچستان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں-بلوچستان کے نوجوانوں کو بھی یہ یقین کر لینا چاہیے کہ ان کے تمام مسائل کا حل دہشت گردی میں نہیں بلکہ آئین اور جمہوریت میں ہے-اگر بلوچستان کے نوجوان دہشت گردی کو ترک کر کے آئینی جمہوری سیاسی جدوجہد کا اغاز کریں تو میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بنگلہ دیش کی طرح بلوچستان کے نوجوان بھی کامیاب اور کامران ہو سکتے ہیں- منظم بیدار باشعور عوامی طاقت کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی-
لہو لہو بلوچستان اور سیاسی حل
Aug 31, 2024